فیضانِ نظر اور مکتب کی کرامت

ڈاکٹر عریف جامعی 
اتھاہ کائنات کی وسعتوں میں انسان کا آنکھ کھولنا تحیرات کی دنیا کا ایک واقعۂ عظیم ہے۔ ظاہر ہے کہ جسمانی لحاظ سے نحیف و ضعیف انسان کی کائنات میں کچھ اسی طرح کی حیثیت ہوتی ہے جو ایک تنکے کی طوفان میں ہوتی ہے۔ تاہم تنکا بھنور میں گرتے ہی نابود ہوجاتا ہے، جبکہ انسان ڈوب ڈوب کر ابھرتا رہتا ہے اور مختلف حیثیتوں میں ہست و بود کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ اس طرح انسان کو پیش آنے والے تمام خطرات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امکانات میں بدلتے جاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح دانہ مٹی میں دب کر زمین کی تاریکیوں سے نئے بہار کی نوید سناتا ہے اور بہت جلد کھیتوں، کھلیانوں، تاکستانوں اور نخلستانوں کی شکل میں زمین کو نئی زندگی عطا کرتا ہے، کچھ اسی طرح انسان کرۂ زمین میں چھپ کر نہ صرف اپنے آپ کو پہچانتا ہے بلکہ وہ کائنات کو دریافت کرکے اس کو نئے معانی عطا کرتا ہے۔
انسان اپنے اندر موجود امکانات کو رحم مادر میں ہی دریافت کرنا شروع کرتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ میں نہ صرف خواب دیکھتا ہے بلکہ ہنستا بھی ہے۔ اس طرح انسان تین پردوں (ظلمات ثلاث، الزمر، ۶) کے پیچھے رہ کر بھی کسی قسم کی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔ یعنی انسان کے لئے ماں کی کوکھ ہی پہلی کائنات ہوتی ہے جہاں اسے نہ صرف مادی قالب عطا ہوتا ہے بلکہ والدین کی طرف سے غیر محسوس طریقے پر بنیادی اخلاق بھی اس کی طرف منتقل ہوتا ہے۔
یہی انسان جو جسمانی یا مادی اعتبار سے ضعیف محض ہوتا ہے، بنیادی قویٰ سے اس طرح مالامال ہوتا ہے کہ وہ امکانات کی اپنی ایک کائنات کے ساتھ عالم شہود میں آتا ہے۔ اس طرح محسوس سطح پر ماں کی گود اس کی پہلی درسگاہ بن جاتی ہے جو اس کے لئے تعلیم و تربیت کا ایک فطری ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ والدین نہ صرف بچے کی مادی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اس کی نشوونما کا باعث بنتے ہیں بلکہ اس کی اخلاقی اور علمی تربیت کا بھی سامان کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مہد (گہوراہ) دامن مادر کی توسیع کے طور پر انسان کے لئے تعلیم و تربیت کے سلسلے کو جاری رکھتا ہے۔ تاہم رحم مادر اور دامن مادر کی طرح گہوارہ بھی والدین کی مشترک جدوجہد کے ذریعے انسان کے لئے سکون و راحت کا باعث بنتا ہے اور انسان ان مراحل سے نکل کر ہی رسمی تعلیم و تربیت کے لئے مکتب کا رخ کرتا ہے۔
واضح رہے کہ انسان کی تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل میں نہ صرف والدین اور خیر خواہوں کا ’’فیضان نظر‘‘انسان کو حاصل ہوتا ہے، بلکہ غیر رسمی ’’مکتب کی کرامت‘‘ بھی اس کے شامل حال ہوتی ہے۔ اس بات کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ والدین بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی، بلکہ اس سے قبل ہی، اس کی ہر طرح کی نشوونما کے لئے مستعد ہوجاتے ہیں۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ والدیں بچے کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اس کی اخلاقی تندرستی کے لئے بھی پہلے سے انتظام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین طبیبوں اور حکیموں کے ساتھ ساتھ خدا کے بندگان خاص کا رخ کرکے بچے کی خوشحال زندگی کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ والدین بچے کے لئے دوا کے ساتھ ساتھ دعا کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سیرت طیبہ میں کئی ایک واقعات نقل ہوئے ہیں جہاں بچے کو پیدائش کے ساتھ ہی نبیؐ کے پاس دعا کے لئے حاضر کیا جاتا تھا۔ عبداللہ ابن عباس کو جب آپ کی خدمت میں لایا گیا تو ان کے لئے آپ نے اس طرح دعا فرمائی: ’’اللھم! فقھہ فی الدین و علمہ التاویل: اے اللہ! اس کو دین کی سمجھ عطا کر اور اسے تاویل (سمجھانے) کا علم عطا فرما!‘‘ ظاہر ہے کہ ابن عباس کو  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان نظر (رحمت) کے ساتھ ساتھ مکتبۂ مسجد النبوی کی کرامت بھی حاصل ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ پوری امت میں ’’ترجمان القرآن‘‘ اور ’’حبرالامہ‘‘ کے القاب سے مشہور، معروف اور مقبول ہوئے۔
اب جہاں تک فیضان نظر کا تعلق ہے تو یہ ’’وہبی ‘‘اور ’’کسبی‘‘ دونوں دائروں میں انسان کو اپنی افتاد طبع کے مطابق حاصل ہوتا ہے۔ انسانیت کی تاریخ تعلیم و تعلم اور سرگزشت فلسفہ و حکمت میں ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح انسانوں کے ایک معتدبہ طبقے نے اپنے اساتذہ سے علم و حکمت کے رموز سیکھ کر اس روایت کو آگے بڑھایا، جس سے حیات انسانی کی راہ گنجلک کے رازہائے سربستہ کھلتے گئے اور ان راہوں پر انسانیت کا سفر آسان ہوا۔ افلاطون کا سقراط سے اور ارسطو کا افلاطون سے فیض حاصل کرنا اسی بات کی غمازی کرتا ہے کہ استاد بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے شاگرد میں حصول علم کی تڑپ اور لگن پیدا کرتا ہے، جس سے شاگرد علم کا ایک متلاشی بن کر علم کے بحر ناپیدا کنار میں غواصی کرتا ہے۔ اس محنت شاقہ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسانیت کی پیشانی علم و حکمت کی تجلّی سے چمک اٹھتی ہے۔ تاہم خواص کو حاصل ہونے والے اس فیضان نظر کو مکتب کی کرامت ہی آگے بڑھاتی ہے اور عوام تک پہنچانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس سلسلے میں افلاطون کا مکتبہ (اکیڈمی) اور ارسطو کا مکتبہ (لائسیم) کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہی کے توسط سے فلسفے کی روایت جدید دنیا کو منتقل ہوئی۔ تاہم مسلمان مشائیین (مسلم پریٹیٹکس) نے اس روایت کو آگے بڑھانے میں بیچ کی کڑی کا کردار ادا کیا۔
تاہم اللہ تبارک و تعالی کو دنیا کی امامت جن ہستیوں کے سپرد کرنا تھی انہیں صداقت، شجاعت اور عدالت کا سبق وہبی طور پر پڑھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمت شکن حالات میں بھی ان کے پائے استقلال میں کوئی جنبش پیدا نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ یہ جماعت اصل میں پیغمبران کرام پر ہی مشتعمل تھی، اس لئے انہوں نے کامل یکسوئی کے ساتھ انسانیت کو توحید و حنیفیت کا درس دیا۔ خدا کی ان برگزیدہ ہستیوں نے اس راہ میں پیش آنے والی تمام آزمائشوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا۔ ظاہر ہے کہ صبر و ثبات کا ثمرہ انہیں اللہ تعالی کی طرف سے کامیابی کی صورت میں ملا۔ ایسا ہی کچھ قرآن کی اس عبارت سے عیاں ہوتا ہے: ’’جب ابراہیم کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کردیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنادوں گا۔‘‘ (البقرہ، ۱۲۴) سیادت اور امامت کی یہی امانت ان برگزیدہ ہستیوں نے اپنی اولاد کی طرف منتقل کی جب انہوں نے اس بار گراں کو اٹھانے کی حامی بھر لی۔ بفحوائے الفاظ قرآن: ’’(ان کے) بیٹے (اسمٰعیل) نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے، ان شاء اللہ،  آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘(الصفٰت، ۱۰۲)
پیغمبران کرام کی طرف علم حقیقی کو منتقل کرنے کے لئے رب تعالی نے مختلف طریقے اختیار فرمائے۔ وحی کے علاوہ خدائے رحمٰن نے ایک طریقہ یہ بھی اپنایا کہ کسی بندۂ خاص کے ذریعے علم لدنی اپنے پیغمبر تک پہنچایا۔ اس کی سب سے درخشاں مثال وہ ہے جس میں سیدنا موسیٰ کو خدا کے ایک خاص بندے کی مصاحبت حاصل ہوئی اور انہیں اللہ تعالی کی مختلف تدابیر سمجھائی گئیں۔ جب خدا کے اس خاص بندے نے کشتی میں سواراخ کیا، ایک لڑکے کو قتل کیا اور مہمان نوازی کی صفت سے ایک بستی کے چند باشندوں کے مکان کی دیوار درست کی، تو سیدنا موسیٰ کے تعجب کو دور کرنے کے لئے ان باتوں کے معنی اس طرح واضح فرمائے: ’’کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے۔ میں نے اس میں کچھ توڑ پھوڑ کرنے کا ارادہ کرلیا، کیونکہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً ضبط کرلیتا تھا۔ اور اس لڑکے کے ماں باپ ایمان دار تھے۔ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں یہ انہیں اپنی سرکشی اور کفر سے عاجز و پریشان نہ کردے۔ اس لئے ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس کے بدلے (انہیں) اس سے بہتر پاکیزگی والا اور اس سے زیادہ محبت و پیار والا بچہ عنایت فرمائے۔ دیوار کا قصہ یہ ہے کہ اس شہر میں دو یتیم بچے ہیں، جن کا خزانہ ان کی اس دیوار کے نیچے دفن ہے۔ ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا۔ تو تیرے رب کی چاہت تھی کہ یہ دونوں یتیم اپنی جوانی کی عمر میں آکر اپنا یہ خزانہ تیرے رب کی مہربانی اور رحمت سے نکال لیں۔‘‘ (الکہف، ۷۹-۸۲)
پیغمبران کرام کے ساتھ ساتھ خدا کے برگزیدہ بندوں نے بھی علم و حکمت کو بندگان خدا تک پہنچانے کام بحسن و خوبی انجام دیا۔ چونکہ ایک دانشمند انسان اپنی اولاد کو اپنا مخاطب اول تصور کرتا ہے، اس لئے بعض اوقات گھر نے بھی مکتب کی شکل اختیار کرکے علم و دانش کو آگے بڑھایا۔ اس سلسلے میں قرآن نے حضرت لقمٰن کا اپنے فرزند کو کیے گئے مواعظ کوبڑی اہمیت دی ہے۔ ان مواعظ میں آپ نے جہاں خدا کا شکر کرنے پر زور دیا وہیں شرک کی مکمل نفی کی۔ علاوہ ازیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت بیان کی اور خدا کے کامل علم کے بیان کے ساتھ ساتھ نماز کی پابندی، نیکیوں کو فروغ دینے اور برائیوں کی بیخ کنی کے کار عظیم میں صبروثبات کی اہمیت کو اجاگر کیا اور عزیمتوں کے اس سفر میں تکبر سے مکمل اجتناب کی تلقین کی۔ (لقمٰن، ۱۲-۱۹)
سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچنے والے انقلاب عظیم کے بعد علماء کرام نے فیضان نطر اور مکتب کی کرامت کو مسجد میں یکجا کیا۔ جب اسلامی تہذیب و تمدن کی توسیع کے ساتھ ساتھ کئی نئے شہر بسائے گئے تو ان کے اندر تعلیم و تعلم کی ایسی تحریک پیدا ہوئی کہ ہزاروں لوگ جید اساتذہ کے فیضان نظر سے فیضیاب ہوئے۔ کوفہ اور بصرہ جیسے جڑواں شہروں میں بھی کچھ ایسا ماحول قائم ہوا کہ تشنگان علم نے ان کی طرف رخ کرکے اپنی پیاس بجھائی۔ ان شہروں کی مساجد اور مکاتب میں اسلام کی علمی روایت کچھ اس طرح پروان چڑھی کہ اسلامی علمیات (اپسٹمالوجی) پر اس کا رنگ چڑھا رہا۔ بصرہ کے انہی مراکز میں سے ایک مرکز پر اسلام کے ایک چوٹی کے بزرگ عالم، یعنی حسن البصری نے علم کو کچھ اس طرح وسعت دی کہ تصوف اور مسلم فلسفے کی روایت پر آپ کے زہد کا رنگ چڑھ گیا۔ جہاں ایک طرف تصوف کو اس مرکز علم کے ساتھ ایک خاص نسبت حاصل ہوئی، وہیں علم الکلام کی دو نامور شخصیات، واصل ابن عطا اور عمرو ابن عبید بھی ابتدائی طور پر اسی مرکز سے وابسطہ رہے ہیں۔
الغرض اسلامی علوم کے شائع و ذائع ہونے میں بڑے بڑے شہروں کے ساتھ منسلک جید علماء نے فقیدالمثال کردار ادا کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ سلسلہ مکہ اور مدینہ سے شروع ہوا تھا، جہاں سیدہ عائشہ، سیدنا علی، عبداللہ ابن عمر، عبداللہ ابن عباس، امام مالک وغیرہ جیسی شخصیات نے شجر علم کی آبیاری کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوفہ، بصرہ، بغداد، فسطاط، قیروان، بخارا، سمرقند، قرطبہ، غرناطہ اور برصغیر کے کئی شہروں میں نمودار ہونے والے علماء کرام نے اپنے شاگردوں کو فیضان نظر سے بھی نوازا اور انہیں مکتبوں کے ساتھ جوڑ کر علمی کرامات دکھانے کے قابل بھی بنایا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر سرزمین کشمیر کو سیدالسادات، میر سید علی ہمدانی اور ان کے فرزند ارجمند، میر محمد ہمدانی کا علمی فیض حاصل ہوا۔ یہ بات کتنی اطمینان بخش ہے کہ میر سید محمد ہمدانی، جنہیں اپنے والد گرامی کا فیضان نظر حاصل ہوا تھا، نے یہ فریضہ اس طرح حس وخوبی کے ساتھ انجام دیا کہ حکمران وقت،
  اسکندر نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے، جس کی گواہی پنڈت جون راج نے اپنی راج ترنگنی میں دی ہے۔ شاید اسی لئے سید کو شیخ نورالدین نورانی نے کشمیریوں کا “پیر” (مرشد) قرار دیا!
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ 9858471965)