غزلیات

گلہ میں کیسے کروں خدایا!نصیب میرے خراب کیوں ہیں
بہت پریشاں ہوں میرے حصے میں رنج و غم بے حساب کیوں ہیں
سکون و راحت کے چند پل بھی نہ جی سکا ہوں میں عمر ساری
لکھےنصیبوں میں ہر گھڑی یہ مصیبتیں اور عذاب کیوں ہیں
جہاں سے دل اب تو بھر گیا ہے ، زمانہ لگتا ہے سارا بوجھل
مگر خیالوں میں بس رہے اب حسین لمحوں کے خواب کیوں ہیں
نظر جو ڈالی چمن پہ اپنے، گُلوں کو پایا بغیر خوشبو
نہیں مہک جو گلوں میں کچھ بھی، تو کہتے ان کو گلاب کیوں ہیں
سوال سیدھا سا پوچھ بیٹھا، اگر چہ میں اپنی سادگی سے
ذرا بتا دے خطا ہوئی کیا یہ تیکھے ترِچھے جواب کیوں ہیں
زمانہ کروٹ بدل چکا ہے، بنا ہے انسان بے مروّت
یہ زندگانی ہے چار دن کی پتہ نہیں یہ حباب کیوں ہے
چمن میں جوں ہی بہار آئی، خزاں نے فوراً ہی آ دبوچا
شجر پہ بلبل نے یہ صدا دی کہ پھول زیرِ عتاب کیوں ہیں
نتیجہ دنیا کی رغبتوں کابڑی پریشانیاں ہیں شادابؔ
یہ پوچھنا ہی فضول ہے اب کہ ہم پہ نازل عذاب کیوں ہیں

غلام رسول شادابؔ
مڑواہ،کشتواڑ ، جموں
موبائل نمبر؛ 9103196850

ہم بدکاروں کی حالت پر اُس کو رحم تو آئے گا
سُوکھی دھرتی کے سینے پر رحمت وہ برسائے گا

اپنے ہاتھوں کاٹ کے جنگل پربت ننگے کر ڈالے
یہ نہ سوچا دھوپ بڑھی تو چھاؤں کہاں سے لائے گا

سرگوشی میں آکر مجھ سے پیڑوں نے یہ ہے پوچھا
اپنی سوکھی اِن شاخوں پر کون پرندہ آئے گا

کھیتوں کی یہ ساری مٹی بِن پانی کے راکھ ہوئی
دیکھ دراڑیں اس میں مالی خون کے اشک بہائے گا

پوہ میں دیکھ کے دھوپ کا منظر آج ہیں سارےخوش لیکن
اپنے اِن اعمال پہ انساں کل کو خود پچھتائے گا

اپنے اُس خالق کا دامن ہاتھ سے باکل مت چھوڑو
وہ چاہے تو بنجر چٹانوں میں پھول کِھلائے گا

توبہ کے دروازے اُس نے ہر پل کھول کے ہیں رکھے
گریہ زاری دیکھ کے اپنی اُس کو رحم تو آئے گا

بادل کی کوئی ذات پات ہے نہ ہی اُس کا مذہب ہے
رحمت بن کر جب برسے گا ہر شے کو نہلائے گا

مانگ رہا مانوسؔ خُدایا زرخیزی دے ہر جانب
تیرے بن ہے کون جو ٹھنڈے قُلزم کو گرمائے گا

پرویز مانوسؔ
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛9622937142

غبارِ دل کا ممکن ہے خلشؔ باران ہو جانا
مگر آساں نہیں مشکل کا یوں آسان ہو جانا
غمِ ہستی سے اپنی جاں بچانے کیلئے اے دل
ہے بہتر جاوِداں ہوکے ترا بے جان ہو جانا
یہ کیا کم ہے کسی کے غم کا یوں احسان ہو جانا
حیاتِ غم رسیدہ کا سر و سامان ہو جانا
کبھی اوراق پر الفاظ کی بارش برستی ہے
کبھی الفاظ سے اوراق کا دہکان ہو جانا
کوئی ہے دید خواہ کوئی یہاں ہے ہجر کا مارا
قیامت ہے وصال و ہجر کا یکسان ہو جانا
ہوئی ایسے گزر ہم سے خلشؔ عمرِ شکن جیسے
مکمل کوئی افسانہ بلا عنوان ہو جانا
خیالِ یار کا شب بھر وبالِ جان ہو جانا
در و دیوار کا اکثر خلِشؔ زِندان ہو جانا
فِراقِ یار میں ہم نے یہ منظر بارہا دیکھا
سِتاروں سے بھرے آکاش کا سُنسان ہو جانا
رِوایت میری بستی کی کئی برسوں پرُانی ہے
یہ آدھی شب کسی کی موت کا اعلان ہوجانا
کبھی اک یاد کا راحت کا یوں سامان ہو جانا
کبھی اک یاد کا ہر پل لہو افشان ہو جانا
تغافل میری حالت پر بڑا آسان ہے تجھ کو
بڑا دُشوار ہے تم سے یوں بے پُرسان ہو جانا
ہوا جب بھی ذکر تیرا غزلخوانی ہوئی پرُنم
قلم کاغذ کا دیکھا ہے لہو لوہان ہو جانا
کبھی غم میں ٹپکتا ہے لہو نوکِ قلم لیکن
کبھی احساس کا الفاظ کا فُقدان ہو جانا

خلِشؔ
اسلام آباد کشمیر
[email protected]

ہر طرف شور مچا ہو جیسے
کوئی سولی پہ چڑھا ہو جیسے
دیکھ کر اس نے پھیر لی آنکھیں
مجھ کو پہچان لیا ہو جیسے
ہر گھڑی دل سے لگا رہتا ہے
غم یہ ورثے میں ملا ہو جیسے
ہائے وہ ہنستا ہوا اک چہرہ
جھیل میں پھول کھلا ہو جیسے
اُف یہ چہرے پہ گھنیری زلفیں
چاند بادل سے گِھرا ہو جیسے
ایسا لگتا ہے اُس کی باتوں سے
اب تلک مجھ سے خفا ہو جیسے
کٹ رہی ہے رفیقؔ مشکل سے
زندگی ایک سزا ہو جیسے

رفیق ؔعثمانی
آکولہ مہاراشٹر
سابق آفس سُپر انٹنڈنٹ BSNL

اک پری سے دل لگا کر رو پڑے
اپنے دکھ کو خود چُھپا کر رو پڑے
اُس کی زلفوں کے ہوئے جب ہم اسیر
اپنی دولت کو لُٹا کر رو پڑے
وہ پرائے کا پرایا ہی رہا
ہم اسے اپنا بنا کر رو پڑے
بے وفائی اس نے کی ہر طور سے
اُس سے اپنا دل لگا کر رو پڑے
روگ دل کا لگ گیا ہے اب ہمیں
پیار کا قصہ سُنا کر رو پڑے
دوست سمجھا میں جسے دشمن ہوا
اُس کو دل میں ہم بسا کر روپڑے
عشق میں یوں جان دی اپنی ثمرؔ
اُس پہ خود کو ہم مٹا کر رو پڑے

سمیع احمد ثمرؔ
سارن بہار
[email protected]