غزلیات

بوجھ غربت کا اُٹھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یعنی مزدور کماتے ہوئے مر جاتے ہیں
پاس رکھتے ہیں بزرگوں کی روایات کا ہم
رشتے ناطوں کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
جو ہیں نفرت کے اندھیروں کے مخالف وہ لوگ
پیار کے دیپ جلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ابنِ حیدر کے طرفدار ہیں اس واسطے ہم
پیاس اوروں کی بُجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان غریبوں کے مکاں توڑ دئے ظالم نے
جو مکاں اپنے بناتے ہوئے مر جاتے ہیں
امن کے پھول کھلانے کی تمنا میں یہ لوگ
آگ نفرت کی بُجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
اور ہونگے جو انہيں دیکھ کر جیتے ہوں گے
ہم تو نظریں ہی ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں
غم کو سینے میں چھپائے ہوئے کچھ لوگ رفیق ؔ
ساری دنیا کو ہنساتے ہوئے مر جاتے ہیں

رفیقؔ عثمانی
سابق آفس سپر انٹنڈت
BSNLآکولہ مہاراشٹرا

آ کے بزمِ ادب نشین میں ہم
ہوگئے ہیں معززین میں ہم
ہر قدم پر عروج پاتے گئے
کر کے گھر چشمِ حاسدین میں ہم
ڈس لے تو آج جتنا ڈسنا ہے
ہونگے کل تیری آستین میں ہم
ہاتھ دھو بیٹھے ہیں خراب سے بھی
کھوئے کچھ ایسے بہترین میں ہم
سب ترے عشق کی نوازش ہے
جو ہیں چشمِ تماش بین میں ہم
ہار کا غم ہے اب بھی سینے میں
لاکھ ہیں آج فاتحین میں ہم
دھیرے دھیرے سنورتے جاتے ہیں
رہ کے قربِ مخالفین میں ہم
یہ جو ہے سر زمینِ ہند ذکیؔ
دفن ہونگے اسی زمین میں ہم

ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج، بارہ بنکی، یوپی

خود سے یوں دور ہو گئے ہیں ہم
مثلِ کافور ہو گئے ہیں ہم
ہے کیا عکس غم مصور نے
اور مشہور ہو گئے ہیں ہم
آئینے سے تھے دوستوں میں سو
ٹوٹ کر چور ہو گئے ہیں ہم
شوقِ دیدار کا ثمر ہے کیا؟
شوخئِ طور ہو گئے ہیں ہم
کچھ کے زخموں پہ ہم ہوئے مرحم
کچھ کے ناسور ہوگئے ہیں ہم
لب کشائی بہت ضروری ہے
اب کے مجبور ہو گئے ہیں ہم
پارساؤں کا ہے کرم عارضؔ
رندِ مخمور ہو گئے ہیں ہم

عارض ارشاد
نوہٹہ سرینگر
موبائل نمبر؛7006003386

کس امتحاں سے ہم کو گزرنا نہیں پڑا
مانا صلیبِ وقت پہ مرنا نہیں پڑا

وہ خواب طاقِ نسیاں پہ رکھ دیتا ہوں جسے
بازارِ زندگی میں بکھرنا نہیں پڑا

وہ جبرِتیرگی ہے کہ خورشیدِ صبح کو
طشتِ اُفق سے آج اُبھرنا نہیں پڑا

احباب دن کی روشنی میں چھوڑ کر گئے
کوئی چراغ گُل ہمیں کرنا نہیں پڑا

دل میں کچھ ایسے نقش بھی موجود ہیں جنہیں
لفظوں کے آئینے میں اُترنا نہیں پڑا

امجدؔ خزاں شعار حقیقت کے زور سے
ٓٓشاخِ گماں پہ ہم کو ٹھہرنا نہیں پڑا

امجد ؔاشرف ملہ
شلوت سمبل سوناواری بانڈی پورہ
[email protected]

اک عمر تلک یہ گماں پالے نہیں جاتے
اب مجھ سے مرے خواب سنبھالے نہیں جاتے

دل میں تو کِیا ہے گھنی تاریکیوں نے گھر
اِن آنکھوں سے لیکن یہ اُجالے نہیں جاتے

یہ دن کسے معلوم میسر ہوں نہ ہوں کل
دن وصل کے یوں بے دِلی ٹالے نہیں جاتے

یہ دشتِ محبت ہے تری دنیا نہیں ہے
دل میں جو اُترتے ہیں نکالے نہیں جاتے

یہ کیسا سفر تھا، ابھی تک روح سے میرے
تھالے لہو کے، جسم سے چھالے نہیں جاتے

میر شہریار
اننت ناگ‎، کشمیر

جبب کبھی زندگی آزمانے لگے
ایک پل میں ہزاروں بیگانے لگے
رات بارش ہوئی چھت ٹپکنے لگی
جگمگاتے دئے ٹمٹمانے لگے
پھول کھلنے لگے پھر چمن در چمن
کیا تیرے جانِ من مسکرانےلگے
جھوٹ چُھپتا نہیں کیوں چُھپاتےگئے
دیکھتے دیکھتے سو بہانے لگے
جب تیرا ہم سفر ہی کوئی اور ہے
ہم تمہیں کیوں بھلا یاد آنے لگے
گھر کے دائیں یا بائیں سے آوا ز دو
روبرو کیوں کھڑے کھٹکھٹانے لگے
خوابِ غفلت میں تھی زندگی خواہ مخواہ
فکرِ دنیا میں جب سر کھپانے لگے
تم کو خود سے ملے اک زمانہ ہوا
اور مشکور ؔ کو بھی زمانے لگے

مشکورؔ تماپوری
تماپو ر ، کرناٹک

ہوتے رہتے ہیں یہ اکثر واقع حوادث
یاں ہر کوئی ہے زیرِ خطرہ حوادث

بچے ہیں کچھ اِن میں اتفاق سے
اور کچھ بن چکے ہیں لقمۂ خوادث

ہیں نہیں جو بس میں ہمارے صورتؔ
وہ ہی تو ہیں، اور ہیں کیا حوادث

اعمال اپنے بھی ہیںشامل اِس ہیں
زندگی نہیں ہے محض مجموعہ حوادث

ہم سے روکے نہیں بنتے ہیں یہ صورتؔ
بتائے کوئی روکیں کس طرح حوادث

صورتؔ سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549