غزلیات

صحرا میں تجھے جانِ جگر دیکھ رہا ہوں
جیسے کوئی پھولوں کا نگر دیکھ رہا ہوں
تپتے ہوئے صحرا میں شجر دیکھ رہا ہوں
جاناں! تو جدھر ہے میں اُدھر دیکھ رہا ہوں
مارے گئے جو مجھ کو ترے عشق میں پتھر
اُن پتھروں میں لعل و گہر دیکھ رہا ہوں
مدت سے جو سوکھا تھا شجر آج اُسی پر
میٹھا یہ محبت کا ثمر دیکھ رہا ہوں
وہ صبر عطا کر دیا ہے مجھ کو خدا نے
اس ہار میں بھی فتح وظفر دیکھ رہا ہوں
اک جستجو تھی جس کی مرے دل کو جہاں میں
اس دشتِ محبت میں وہ در دیکھ رہا ہوں
قرطاس پہ شادابؔ ابھی رکھ کے قلم کو
میں شوق سے یہ دستِ ہنر دیکھ رہا ہوں

شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435

بے رخی تیری نظروں کی جب پاؤں گا
تیری محفل سے اُٹھ کر چلا جاؤں گا
میرا اس کے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں
تیری مخمور آنکھوں میں کھو جاؤں گا
غیر ممکن ہے تجھ سے الگ ہو سکوں
چھوڑ کر تجھ کو اب میں کہاں جاؤں گا
زِندگی ہے تُو جب تک میرے ساتھ ہے
تیری دُوری نہ ہرگز میں سہہ پاؤں گا
ہے میری اہمیت کیا میں غافل نہیں
ایک غنچہ ہوں گلشن کو مہکاؤں گا
زندگی جب میسر ہے قربت تیری
جو بھی آداب ہیں میں بجالاؤں گا
اے ہتاشؔ اس زمانے میں یہ فکر ہے
اپنی عزت میں کیسے بچا پاؤں گا

پیارے ہتاشؔ
دوردرشن لین جموں
موبائل نمبر؛8493853607

تجھے جو چاہیے لے جا مگر دے جا وَچَن آقا
لگےگی جب مری پیشی تو ہی کرنا جتن آقا
بڑا ہی خوش دل تھا میں مگر دن تھے وہ بچپن کے
مجھے اک بار لوٹادےمرے بچپن کے دن آقا
رہے کب تک یہ تشنہ لب ترے دیدار کا پیاسا
مری مشکل کو کر لے تو خود ہی ضؤفگن آقا
مری جب نبض رُک جائے چلےآنا مجھے لینے
مجھے لگنے نہیں دینا وہ دوزخ کی اگن آقا
مری جو آخری خواہش رہے باقی نہ وہ پھر سے
بخش اِن ٹوٹے لفظوں کو تو اندازِ سخن آقا
یہاں پر کچھ نہیں میرا ترا تجھ کو لُٹانا ہے
مجھے تو ساتھ لینا ہے فقط دو گز کفن آ قا
سدا پروازؔ کرتا ہوں تری رحمت کے دم سے میں
یہ میری آخری عرضی مٹا راہ ِکٹھن آ قا

جگدیش ٹھاکر پرواز
ساکنہ لوپارہ دچھن ضلع کشٹواڑ،جموں
موبائل نمبر؛9596644568

ضرور اندر سے وہ ٹوٹا بہت ہے
کہ ہر اک بات پر ہنستا بہت ہے
اسے جینے نہیں دے گی یہ دنیا
سنا ہے ہم نے وہ سچا بہت ہے
نقابِ رخ پلٹ دی اس نے شاید
ہر اک سُو چاند کا چرچا بہت ہے
کروں کس طرح میں اس کی بُرائی
مرے دل نے اسے چاہا بہت ہے
کوئی اس کی خبر تک بھی نہ لے گا
وہ سب سے ٹوٹ کر ملتا بہت ہے
اسے تو دوستوں پر تھا بھروسہ
مگر اس وقت وہ تنہا بہت ہے
سمجھ پائے نہ اس کو اس لئے ہم
اسے اس ذہن نے سوچا بہت ہے
ابھی شب کا اثر ہے اس پہ باقی
کہ چہرہ صبح کا اُترا بہت ہے
بچو مظلوم کے اشکوں سے اب تم
یہ دریا آج کل بپھرا بہت ہے
نہیں ہے فرض چاہت میں ملن ہی
تم اپنا کہدو بس اتنا بہت ہے
مخالف اس کے بڑھتے جا رہے ہیں
یقیناً وہ ذکیؔ اچھا بہت ہے

ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج، بارہ بنکی، یوپی

یار سے اب حجاب تھوڑی ہے
میرے رخ پر نقاب تھوڑی ہے
اس کے ہاتھوں میں مرا چہرہ ہے
چاند،تارہ،گلاب تھوڑی ہے
لوٹتی ہے مشاعرہ گاکر
یہ اَداہے داراب تھوڑی ہے
پڑھ نہ پاؤ گے قصئہِ ہستی
یہ غزل کی کتاب تھوڑی ہے
بن پئے ہی بہک گئے صاحب
آنکھ میری شراب تھوڑی ہے
چپ رہو ،گر ہے شیخ نے پی لی
ان کی نیت خراب تھوڑی ہے
سب سبق یاد کرلو چاہت کا
زندگی کا نصاب تھوڑی ہے
دور سے دیکھ کیا بھلا سمجھیں
دل ہے دریا سراب تھوڑی ہے
جھوٹ کے شاہ پھر وہی جملہ
ہر گھڑی انتخاب تھوڑی ہے
اک نظر میں نہیں تم پڑھ سکتے
یہ جبیں انتساب تھوڑی ہے

جبیں نازاں
نئی دہلی بھارت

تیری تو چاہت ہونےلگی ہے
اب یہ محبت ہونے لگی ہے

آگیا جب سے تیری پکڑ میں
خود سے شکایت ہونے لگی ہے
ارماں نہ اب ہے جینے کا مجھ کو
خود سے عداوت ہونے لگی ہے

تیرے خیالوں کی ہی بدولت
خوب عبادت ہونے لگی ہے

بن ترے واقف کوئی نہیں ہے
اوروں سے نفرت ہونے لگی ہے

روشن دیکھو میری یہاں اب
طلحہؔ حقیقت ہونے لگی ہے

جنید رشید راتھر طلحہؔ
آونورہ شوپیان کشمیر

کس امتحاں سے ہم کو گزرنا نہیں پڑا
مانا صلیبِ وقت پہ مرنا نہیں پڑا

وہ خواب طاقِ نسیاں پہ رکھ دیتا ہوں جسے
بازارِ زندگی میں بکھرنا نہیں پڑا

وہ جبرِ تیرگی ہے کہ خورشیدِ صبح کو
طشتِ اُفق سے آج اُبھرنا نہیں پڑا

احباب دن کی روشنی میں چھوڑ کر گئے
کوئی چراغ گُل ہمیں کرنا نہیں پڑا

دل میں کچھ ایسے نقش بھی موجود ہیں جنہیں
لفظوں کے آیئنے میں اُترنا نہیں پڑا

امجدؔ تو جانتا ہے کسی ایسے شخص کو
ٓٓآوازِ مرگ سے جسے ڈرنا نہیں پڑا

امجدؔ اشرف ملہ
شلوت سمبل سوناواری بانڈی پورہ
[email protected]

بچھڑنے والے! توُ پیہم ہماری آنکھ میں ہے
بڑے وثوق سے ہر غم ہماری آنکھ میں ہے

ہم اس لئے بھی تو ہنس ہنس کے رونے والے ہیں
کہ نو بہار کا ماتم ہماری آنکھ میں ہے

فریب کھا کے اُداسی پلٹ کے آنے لگی
بہت دنوں سے شَبِ غم ہماری آنکھ میں ہے

دیار ِہجر پہ ملنے لگا ہے اس سے نصیب
وہ شخص جس کا مجسم ہماری آنکھ میں ہے

پھر ایک بار تعاقب میں تیرے ہم نکلے
پھر ایک سایۂ مبہم ہماری آنکھ میں ہے

صَفِ حریف میں شامل تو ہو گئے لیکن
تمہارے زخم کا مرہم ہماری آنکھ میں ہے

جاذبؔ جہانگیـــــــــر
سوپور، بارہمولہ کشمیر
موبائل نمبر؛7006706987

جب سے تیری باتوں کا میں مرید ہوا
بھری جوانی میں ہے یہ دل قید ہوا

دل جو بھی تُجھے پانے کیلئے نکلا
اپنے ہی کوچے میں وہ یہاں شہید ہوا

لہروں کے خوف سے جو ڈر گیا
ڈوب گیا جو بھی یہاں نا اُمید ہوا

زخم میرا پہلے سے ہی کھلا تھا
پھر کیوں یہ درد آج مجھے شدید ہوا

صیاد تیرا ظُلم و سِتم سہہ کر بھی
راشدؔ اپنے محبوب کے قریب مزید ہوا

راشد ؔاشرف
کرالہ پورہ، سرینگر
موبائل نمبر؛9622667105

آئی بہار دیکھو، آئی ہے انقلابی
خستہ تھے کل، وہی اب لگتے ہیں کیا نوابی!

پھولوں کے اس نگر میں ہر ہر قدم پہ یارو
موسم ہوئے ہیں سارے اب کیسے انتخابی

جیتا ہے کون دیکھو، ہارا ہے کون جانو
کس کو ملی نا کامی اور کس کو کامیابی

ہر ہر چمن میں چھائے موسم ہیں رنگ برنگے
نیلے کہیں کہیں پہ اور کہیں پہ ہیں گلابی

چھائی کہیں مسرت ہے قادریؔ تُو دیکھو
لیکن کہیں کہیں پر دِکھتی ہے اضطرابی

فاروق احمد قادری
کوٹی،ڈوڈہ جموں و کشمیر

متفرق اشعار

کلی دل کی ہے مر جھائی
نظر اب بھی ہے پتھرائی
نہ آیا یارِ جاناں تو
بہار آ ئی تو کیا آئی
۔۔۔
ذکر تیرا زما نوں میں
زمینوں آسما نوں میں
نہاں تو دل کے خانوں میں
ہیں ہم بھی تو دیوانوںمیں

ایک بت سے رہی بات ادھوری
یاد ہے اک ملاقات ادھوری
چاند سورج ستارے ہیں مکمل
آدمی کی لکھی ذات ادھوری

مشتاق مہدی
مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر
فون نمبر9419072053