غزلیات

ہم بھی تو عشق زاد ہیں ضد پر جو آئیں ہم
’’ معشوق روٹھ جائے تو کیوں کر منائیں ہم ‘‘

آہی گئے تو راکھ ہوں اس شعلہ زار میں
کس طرح ظرفِ آگ سے دامن بچائیں ہم

اے دردِ غم شناس کہیں آکے تو ٹھہر
اب کتنی دیر یوں ہی بھلا زخم کھائیں ہم

واجب ہے سوئے دار چلیں چوم لیں رسن
یہ رسمِ عاشقی بھی ستمگر نبھائیں ہم

روشن ہو ماہِ وصل کہ اب اے شبِ فراق
اشکوں سے یوں چراغ کہاں تک جلائیں ہم

کب تک تماشا دیکھیں ہواؤں کی رزم کا
اک سر پھرا سا گُل بھی چمن میں اُگائیں ہم

اب خود سے ہمکلام ہیں شیداؔیوں ہجر میں
اچھی غزل ہے یار پہ کس کو سنائیں ہم

علی شیدا ؔ
نجدون نیپورہ اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛7889677765

خزاں دیکھے بہت اس نے بہاروں کی ضرورت ہے
مرے کشمیر کو اب بھی چناروں کی ضرورت ہے
دُھواں بارود کا دیکھا ہے برسوں ان فضاؤں میں
نگاہوں کو تر و تازہ نظاروں کی ضرورت ہے
سروں سے چھن چکا ہے سائباں لاچار ہیں بچے
اب ان کے واسطے مخلص اداروں کی ضرورت ہے
مرے دل کی یہ نیلی جھیل ہے خاموش مدت سے
مچلنے کے لئے دلکش شکاروں کی ضرورت ہے
بہت اُکتا گئے ہیں آج کے انسان سائنس سے
سکونِ دل کی خاطر ان کو غاروں کی ضرورت ہے
ضعیفی میں کوئی بوڑھا جواں بیٹوں سے کہتا ہے
پکڑ لو ہاتھ میرا اب سہاروں کی ضرورت ہے
بیاں میں کر نہیں سکتا اسے الفاظ کی صورت
تمہارے حُسن کو تو استعاروں کی ضرورت ہے
عجب سی آگ میں اس شہر کے انساں سُلگتے ہیں
خُدایا بھیج دے اب برف زاروں کی ضرورت ہے
ہوئے جاتے ہیں نفرت سےہمارے ذہن زہریلے
شعور و آگہی کے آبشاروں کی ضرورت ہے

پرویز مانوس ؔ
نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142

جو پاس تم ہو تو یہ دشتِ جاں کے غم کیوں ہیں
وفا کی راہ میں حائل یہ پیچ و خم کیوں ہیں

دبائیں دل کے یہ جذبات کیوں بھلا اپنے
جہاں کے واسطے مجبور یار ہم کیوں ہیں

دغا، فریب، جدائی، مقامِ رسوائی
مرے خدا یہ محبت میں سب ستم کیوں ہیں

ہوا رفیق ہے شامل کوئی رقیبوں میں
اُٹھے دعا کے لئے آج ہاتھ کم کیوں ہیں

ہوا ہے رقصِ غمِ ہجر رات بھر عارضؔ
سرے لحاف کے دونوں نہ پوچھ نم کیوں ہیں

عارض ارشاد
نوہٹہ، سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر7006003386

خواب جب مر گئے تھے پانی میں
آس کیوں بچی ناگہانی میں

کون تکتا ہے ایسے حسرت سے
کون مرتا ہے اس جوانی میں

منجمد تیرتی ہیں سب لاشیں
آج دریا کہ اس روانی میں

ناخدا سے بڑا خدا تھا وہاں
بات کچھ ہوگی اس فغانی میں

شکوہ راقمؔ یہی ہے دریا سے
بستہ کیوں بچ گیا کہانی میں

راقمؔ حیدر
حیدریہ کالونی ،شالیمار ، سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛ 9906543569

جب سے اپنے شہر میں وہ کھو گیا ہے

شہر ہی مشکوک سارا ہو گیا ہے
اُس کی یہ در ما ندگی بھی دیدنی ہے

راستے کے بیچ میں جو سو گیا ہے
فصل کیا کاٹے گا وہ یہ جان کر بھی

ریتلے کھیتوں میں کھیتی بو گیا ہے
شہر کے زنداں کا ہوں میں بھی اسیر اِک

گائوں کا آزاد جینا کھو گیا ہے
شہر کی بربادیو ں کا ذکر ہی کیا

جو نہ ہونا تھا وہی توہو گیا ہے
قطرہ قطرہ اشک اپنے یوںبہاکر

میرے دل کے داغ کوئی دھو گیاہے
اُس کی آنکھوں کے سلگتے آنسوئوں کا

تا بہ محشر اِک تلاطُم ہو گیاہے
وہ محافظ ہی حفاظت کیا کرے گا

بیچ کر جو اپنے گھوڑے سو گیا ہے
ریزہ ریزہ ہو رہا ہے اب اسد بھی

زندگی کا لمحہ لمحہ کھو گیا ہے

محمد اسد اللہ وانی
جموں،موبائل نمبر؛9419194261

غزل
وفا کے دیپ جلاؤ کہ دل نثار کروں
کچھ ایسا کرکے دکھاؤ کہ دل نثار کروں
نظر نظر سے ملاؤ کہ دل نثار کروں
کبھی تو دل میں سماؤکہ دل نثارکروں
قرار دل کو نہیں فاصلے سے ملتا ہے
مرے قریب تو آؤ کہ دل نثار کروں
ہر ایک پل ہی تمہاری تلاش ہو مجھکو
کچھ ایسا تیر چلاؤ کہ دل نثار کروں
یہی لگے کہ حقیقت ہے اور کچھ بھی نہیں
کچھ ایسے خواب دکھاؤ کہ دل نثار کروں
کبھی بھی ساتھ نہ میرا حبیب چھوڑو گے
یہ دل سے وعدہ نبھاؤ کہ دل نثار کروں
ہر ایک لمحہ خوشی سے مرا خیال رکھو
مرے وہ ناز اٹھاؤ کہ دل نثار کروں
خیال و خواب میں جس کا نہیں تصور ہو
وہ اپنا رقص دکھاؤ کہ دل نثار کروں
نظر لگے نہ زمانے کی پھر کبھی مجھکو
مجھی سے مجھکو چراؤ کہ دل نثار کروں
زمین و آسماں تارے ہوں میری مٹھی میں
نصیب ایسا جگاؤ کہ دل نثار کروں
کبھی ہو کاش یہ راقم لبوں کے پھولوں سے
ذراسا مجھ کو سجاؤ کہ دل نثار کروں

عمران راقم
موبائل نمبر؛9163916117