غزلیات

اُٹھتا ہوا گُلشن سے دھواں دیکھ رہا ہوں
ہر طرف ہے فریاد و فغاں دیکھ رہا ہوں
ہے بھائی کی شمشیر تلے بھائی کی گردن
دیکھا نہیں جاتا وہ سماں دیکھ رہا ہوں
شیخ و برہمن آج ہیں یوں دست و گریباں
انسان بھی مانگے ہے اماں دیکھ رہا ہوں
اخلاق و مروت کا کہیں نام نہیں ہے
بربادیء آدم کے نشان دیکھ رہا ہوں
وحشی سے نظر آتے ہیں کچھ شیخ و برہمن
دونوں کا ہے برباد جہاں دیکھ رہا ہوں
مذہب پہ تنازعے کہیں ذات پہ جھگڑے
آپس میں لڑاتی ہے زبان دیکھ رہا ہوں
ساقیؔ تیرے ہاتھوں میں ہے جمشید کا یہ جام
اس سے ہے عیاں راز جہاں دیکھ رہا ہوں

امداد ساقی ؔ
لعل بازار، سرینگر
موبائل نمبر؛9419000643

مفلسوں کی بھی حاصل دعا تم کرو
دان پُن بھی برائے خدا تم کرو
فِکر میں یوں نہ زر کی لُٹاؤ حیات
چاردن کےسفر میں مزا تم کرو
چھا رہا ہے جفا کا اثرشہر میں
فاصلہ رکھ کے خو دسے وفا تم کرو
بھول جاؤ اُلجھنا اندھیروں سے تم
اپنے دل میں ہی روشن دِیا تم کرو
کون کہتا ہے آرام امیری میں ہے
یاد غربت میں رب کو کیا تم کرو
دور رہ کر کرونا ہمیں سے گلہ
پاس آنے کی زحمت کیا تم کرو
ناز پرواز ؔپر مت کرو اپنی ہی
رب رضا پر چلیں یہ دعا تم کرو

جگدیش ٹھاکر پروازؔ
لوپارہ دچھن ضلع کشتواڑ
موبائل نمبر؛9596644568

عشق تم ہو، عشق کا درپن ہو تم
اس فقیرِ عشق کا مسکن ہو تم
تم کیا جانو جانِ جاناں کیا ہو تم
اَشک سے بھیگا مرا دامن ہو تم
نفرتوں کے شہر میں میرے لئے
اک محبت کا دیا روشن ہو تم
جو ٹپکتا رہتا ہے ہر پھول سے
جان لو اے جان! وہ جوبن ہو تم
بلبلیں منقاریں دھو کر کہتی ہیں
گل ہو تم، گل رو ہو تم،گلشن ہو تم
مدتوں سے جس کی ہے مجھ کو تلاش
وہ جہانِ عشق کا مخزن ہو تم
خوب جلنا ہے ابھی شادابؔ کو
کس نے اُس کو کہہ دیا کندن ہو تم

شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435

اسکے گھر کی بات ہے یہ
میرے جگر کی بات ہے یہ
تشنہ رکھا جس نے مجھے
اس ساگر کی بات ہے یہ
خاموشی میں ایسی تو اب
کس بہتر کی بات ہے یہ
اسکو دل سے چاہتا ہوں
لو اندر کی بات ہے یہ
ملتا حق ہے سدا جہاں پر
اس افسر کی بات ہے یہ
ڈھوب کے مر تے سب ہیں یہاں
بحر و بر کی بات ہے یہ
طلحہؔ جھکا لو اپنا سَر اب
در پہ خدا کی بات ہے یہ

جنید رشید راتھر طلحہؔ
آونورہ شوپیان،کشمیر

تہذیب کی نظروں میں نگوڑے کی طرح ہیں
زندہ ہیں جو وہ کیڑے مکوڑے کی طرح ہیں
بے شک انہیں ٹھوکر میں تو آنا ہی ہے اک دن
جو راہِ فقیراں میں بھی روڑے کی طرح ہیں
الفت کی جنہیں جھیل میسر نہیں اب تک
ہم تم بھی اسی ہنس کے جوڑے کی طرح ہیں
اے وقت تری پشت پہ میں بیٹھ تو جاؤں
حالات ہی بدکے ہوئے گھوڑے کی طرح ہیں
اب تو مرے دل نے بھی یقین کر لیا ظالم
یادیں تری مرہم نہیں پھوڑے کی طرح ہیں
افسوس کہ اس بار بھی گھمسان کے رن میں
بے موت مریں گے جو بھگوڑے کی طرح ہیں
ذی روح نہیں روح سے ملنا ہے اب ان کو
جو لوگ ترے ہاتھ میں کوڑے کی طرح ہیں
اندر سے سڑے پھل ہیں مگر بک تو رہے ہیں
ہم ڈال پہ ہوتے ہوئے توڑے کی طرح ہیں

مصداق اعظمی
پھولپوراعظم گڑھ، یوپی

ہر موڑ پر مسیحا پر بے بسی کا قصہ
دریا کے درمیاں بھی تشنہ لبی کا قصہ

اوراقِ زندگی پر مُہرِ اجل ثبت ہے
اس کا گلہ ہو کیونکر یہ ہے سبھی کا قصہ

کوکھ ِحوا سے جنمی جب سے بشر کی لغزش
تب سے بنا فسانہ، یہ ہے تبھی کا قصہ

کب سے ہے یہ محبت وہ ہم سے پوچھتے ہیں
پھوٹی ابھی یہ کونپل یہ ہے ابھی کا قصہ

جن کو سبھی یہ ناداں بس اک بشر ہی سمجھے
اُن کی سمجھ سے باہر وللہ چھبی کا قصہ

اپنے قلم پہ پہرہ ہاتھوں میں بیڑیاں ہیں
آکر فلکؔ سے پوچھو سانسیں دبی کا قصہ

فلکؔ ریاض
حسینی کالونی چھترگام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109

 

اپنی پلکوں پہ سجائے میری جان رکھتا ہوں
کہیں اشکوں میں بہہ نہ جائے دھیان رکھتا ہوں

نہ چھیڑ ! ہمدم یادِ ماضی کا سمندر اُمڈ آئے گا
میں بھی تو سینے میں چھپائے طوفان رکھتا ہوں

عمر بھر تمہیں پانے کی یہ جو حسرت رہی باقی
ہزاروں خواہشیں ایسی، ہزاروں ارمان رکھتا ہوں

ہے بات سچ کی تو اِشاروں میں ہی کہیے جناب!
دانتوں تلے دبائے میں اپنی زبان رکھتا ہوں

جو پورے نہ ہوں مجھ سے وہی خواب بیچتا ہوں میں
اپنی حسرتوں کی سجائے میں دُکان رکھتا ہوں

مت پوچھ مجھ سے میر۱ عالمِ تنہائی مشتاقؔ
ہجر میں جینا کیا ہے ہتھیلی پہ جان رکھتا ہوں

خوشنویس میر مشتاقؔ
ایسو، اننت ناگ
[email protected]

یہ ہم کو اُن نے لگائی ہے چوٹ
سو ہم نے دل سے لگائی ہے چوٹ

مقصد ہے اس سے نغمہ پھوٹے، ہم نے
یوں ہی نہیں دِل پہ کھائی ہے چوٹ

پیار، محبت ، اُلفت، وفا کی ہے جو
دِل ہی دِل وہ ہمیں بھائی ہے چوٹ

ہوا ہے کیا ہی اِس کا دل پہ اثر
حال پر ہمارے ترس کھائی ہے چوٹ

صورتؔ جو بھائی ہے ہم نے محبت میں
خانۂ دل میں وہ سچائی ہے چوٹ

صورتؔ سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549

بھول سے ساقی نے مئے اک بار پلایا تھا مجھے
چند گھڑیوں کیلئے اپنا بنایا تھا مجھے

اپنی دنیا کو سجانا اس کو تو آتا ہے خوب
جس طرح سے اپنا دیوانہ بنا یا تھا مجھے

کھوجتا میری قبر کو پھول ہاتھوں میں لئے
زندگی کے موڑ پر جس نے گرایا تھا مجھے

جا رہا ہوں وقتِ آخر مسکراتے گو یہاں
زندگی نے اس قدر ہر پل رُلایا تھا مجھے

کیا حقیقت کیا فسانہ بے بسی میں ہے سعیدؔ
باتوں ہی باتوں میں تو دل میں بسایا تھا مجھے

سعید احمد سعید
احمد نگر، سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380