غزلیات

شب کی آہٹ پہ گزرتی ہے کہانی میری
وقت کیا مانگے اُجالوں سے نشانی میری
شورِ آزار کسی کو نہ سنائی دے گا
جذب سناٹوں میں ہوتی ہے روانی میری
زرد چھاؤں سے نکل لمس نہ جم جائےکہیں
سینکنے آؤ کبھی دھوپ سہانی میری
یہ خسارا ہے مِرا ضد پہ اُڑے ہی رہنا
اُن سے شکوہ بھی نہیں بات نہ مانی میری
تیری یادیں لئے پھرتا ہوں میں چرواہا سا
دم سنبھالے گی سرِ طور شبانی میری
دشت میں سانس تو لینے دو زمانے والو
تم نے اب دیکھی بہت نقلِ مکانی میری
اشک سے دھوئے گی اک روز بیاضیں شیدا ؔ
یاد آئے گی اسے شعر بیانی میری

علی شیداؔ
نجدہ ون،نیپورہ، اننت ناگ کشمیر
موبائل نمبر؛9419045087

میں اپنا عشق زباں سے بیاں کروں بھی نہیں
نظر سے آپ کی لیکن چُھپا سکوں بھی نہیں
ترے غلط کو غلط تک نہ کہہ سکوں ناصح
قسم خدا کی میں اتنا شریف ہوں بھی نہیں
جو تیری یاد کو رو رو کے نذر کر دیتے
ہماری آنکھ میں افسوس اتنا خوں بھی نہیں
یہ کیسے موڑ پر لے آئی زندگی مجھ کو
کہ جی سکوں بھی نہیں اور مر سکوں بھی نہیں
ترے قریب ہی وحشت زدہ سا رہتا ہوں
ترے بغیر مری جاں مجھے سکوں بھی نہیں
تمہارے بعد تمہاری قسم تمہارے لئے
کسی کو چاہتے رہنے کا اب جنوں بھی نہیں
اگر ہے عشق پہ تہمت فقط نمائش کی
تو چشمِ ناز میں پہلے سا وہ فسوں بھی نہیں
کبھی کبھی ہی سہی شاعری کے پردے میں
میں اپنے غم کو زمانے سے کیا کہوں بھی نہیں

مصداق اعظمی
اعظم گڑھ، یوپی
موبائل نمبر؛9451431700

جنہیں منزلیں پانے کا ہو عبور
وہ شاہیں نہیں آشیانے سے دُور
میں وہ باز ہوں جو کبھی اُڑ گیا
مچاتا نہیں ہوں میں بعث و َنشور
نہیں چین،تسکین کوئی قرار
کروں کیا بتا اے دلِ ناصبور
خیالِ مُقیّد فقط ہے مجاز
مُقامِ طرب ہے غیاب و حضور
به رو آسماں سے خدا جانے کیوں !
پلٹ آئی اپنی متاعِ غرور
چُھپا بیٹھا بہ جستجوئے کمال
فقط منتظر تھا سنجاب و سمور
چلو آج خود کا ہی سن لوں کلام
کہ سروِ رواں ہے یہ موج سرور

یاورؔ حبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندوارہ
[email protected]

ایسا کب رتبہ مل جائے
مجھ کو میرا خدا مل جائے

میں محبت کےگُن یہ گاتا
مجھ کو گر لیلیٰ مل جائے

ایسا ہو گا مجھ سے نہیں اَب
میری اُسے بد دعا مل جائے

اشعار مرے چُھوتے منزل
جو غزل کا تو قافیہ مل جائے

تب ہوگا میرا سفر پورا
صحبت تری لمحہ مل جائے

طلحہؔ تری جستجو اب بھی ہے
کب تیرا رستہ مل جائے

جنید رشید راتھر طلحہؔ
آونورہ شوییان کشمیر
[email protected]>

زندگی کی کتاب دیتےہوئے
تھک گئے ہم حساب دیتے ہوئے
مجھکو مکار لگ رہے تھے وہ
مُسکرا کر گلاب دیتے ہوئے
ایک جگنو کے سامنے وہ تو
بُجھ گئے آفتاب دیتے ہوئے

خون آنکھوں میں کیوں اُبھر آئے
اُنکے خط کا جواب دیتے ہوئے
حافظے میں وہ لوٹ کر آیا
یادِ ماضی کا باب دیتے ہوئے

نیند آنکھوں سے ہوگئی غائب
خوش دلی سےعذاب دیتے ہوئے
شرم آئی نہ کچھ بھی صحراکو
خود فریبی سراب دیتے ہوئے
سامنے آگئی حقیقت سب
روزآنکھوں کوخواب دیتے ہوئے
شاعرِ وقت کا مجھے راقمؔ
رو رہے تھے خطاب دیتے ہوئے

عمران راقم
3گرانٹ سٹریٹ، کولکتہ
موبائل نمبر؛9163916117

ہے فانی یہ دنیا، فنا زندگی ہے
تباہ ہونے والی یہاں زندگی ہے
سبھی کو ملے گا گُماں کے برابر
اُداسی ، نِراشہ خطا زندگی ہے
زمانہ برا ہے کبھی یوں نہ کہنا
خدا کی عطا خوش نما زندگی ہے
کبھی ہم کبھی تم کبھی خواب روٹھے
عداوت بلا ہے صلح زندگی ہے
ادب کی جگہ سے ادب گم شدہ ہے
غزل بِک رہی ہے نفع زندگی ہے
کوئی گُنگناتا چلا جا رہاتھا
مصیبت زدہ کی سزا زندگی ہے
بھٹکتے رہے در بہ در عاشقی میں
پتہ نہ چلا لا پتہ زندگی ہے
تری اُس گلی نے نکار ا مگر ہم
ارم میں ملیں گے سدا زندگی ہے
وطن سے محبت ہمیں اِس قدر ہے
نِچھاور ہزاروں دفعہ زندگی ہے
نہ مشکورؔ دوجہ کوئی ہم سفر ہو
فقط آفریں دل ربا زندگی ہے

مشکو ر ؔ تماپوری
تماپور کرناٹک