غزلیات

 

تمہیں بھاتی میاں راحت نہیں کیا
تمہارے دل میں ہے چاہت نہیں کیا
ہے دیتی زیب کیا کاسہ گدائی
کِسی معبود کی تُوامانت نہیں کیا
عطاعت گر تمہیں منظور اُسکی
اُسی سے مانگنے کی سعادت نہیں کیا
جہاں کا آپ ہے وہ کارفرما
کرو گے اُسکی ہی عبادت نہیں کیا
رکھو گر نفس پہ قابو تُم اپنے
فرض اور یہ شہادت نہیں کیا
لگا کر کان سُن لو دِل کی دھڑکن
کرے یہ جان کی قیادت نہیں کیا
تمہیں گر خندہ روئی سے ہوجینا
سمجھ لے سب میں ہے یکسانیت نہیں کیا
سخن گو سب نے مانا تُم ہو عُشاقؔ
تمہیں درکار ہے پھر ریاضت نہیں کیا

عشاقؔ کشتواڑی
موبائل نمبر؛9697524469

وہ ناز نیں قلم اور خیالوں پہ مر مِٹے
اور ہم بھی اپنے چاہنے والوں پہ مر مِٹے

ہر اِس سوال خود میں ہی موزوں جواب تھا
ہم دونوں اپنے اپنے سوالوں پہ مر مِٹے

جِن کی نہ بنی سُورج اور چاند سے وہی
جُگنو کے ٹمٹماتے اُجالوں پہ مرمِٹے

پُرخار راہ پہ چل کر پہنچے جب اُن تلک
وہ بھی ہمارے پائوں کے چھالوں پہ مر مِٹے

کُچھ دیر وہ سوچا کئے کہ کس پہ جان دیں
بِن طے کئے ہی پھول کے گالوں ہی مر مِٹے

لمبی خزاں کے بعد جب گھر آئی ہے بہار
صدیوں کے بُھوکے پیٹ نِوالوں پہ مر مِٹے

بن سکتا ہے نشیمن اِن سے یہ سوچ کر
پنچھیؔ جی اُن کے ریشمی بالوں پہ مر مِٹے

سردار پنچھی
جیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑ،کھنہ پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668

جو بھی ہے تیرے پاس اسے رکھ سنبھال کر
جو جا چکا ہے اس کا نہ ہرگز ملال کر
تیری ہر اک دعا کو کرے گا خدا قبول
پہلے تو بھائی اپنی کمائی حلال کر
خود کو سمجھ رہا ہے وہ حاتم کا جا نشیں
اک روپیہ فقیر کے کاسے میں ڈال کر
سکوں میں چند بیچ رہا ہے ضمیر کیوں
کچھ مرتبہ کا اپنے مسلماں خیال کر
کیسے رکھوں میں بیر بھلا اس رقیب سے
احسان جس نے کر دیا کانٹا نکال کر
خیرات اس کی کیسے کرے گا خدا قبول
دیتا ہے جو فقیر کو سکہ اچھال کر
ٹلنے لگیں بلائیں مرے سر سے اے رفیق
میں خوش ہوں اپنی نیکیاں دریا میں ڈال کر

رفیق عثمانی
آکولہ مہارشٹرا
[email protected]

عمر ساری کاٹ لی ہے دکھ اُٹھانے کیلئے
اب بچا کچھ بھی نہیں آنسو بہانے کیلئے

رہ گیا اپنے لئے ہے سازِ دل ٹوٹا ہوا
گیت کتنے گا چُکا غافل زمانے کیلئے

پڑھ چکا میں بے مروت دوستوں کو بار ہا
راز دل میں رکھ لئے ہیں بس چھپانے کیلئے

موسموں کی طرح میں نے کیا کبھی بدلا مزاج
زخم کھائے ہیں بہت سے مسکرانے کیلئے

لوگ بہلاتے ہیں خود کو آرزوئوں سے سعیدؔ
میں نے بھی ارمان کئے تھے دل جلانے کیلئے

سعید احمد سعید
احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380

 

آئے ہیں وہ خزاں میں نہ آئے بہار میں
موسم گذرتے جارہے ہیں انتظار میں

جب سے مِلی ہے اِن سے نظر اتفاق سے
جو کچھ تھا میرا اب نہیں ہے اِختیار میں

پچھلے دنوں وہ پوچھ رہے تھے میرا پتہ
اَب ہے ذرا سا فاصلہ صبر و قرار میں

چلنا ہے جب تو چلتے رہیں گے قدم قدم
اِک روز ہم بھی ہونگے شمار و قطار میں

اِک آگ سی لگی ہوئی ہے سر سے پائوں تک
صورتؔ یہ حال دیکھا نہیں ہے بہار میں

صورت ؔسنگھ
رام بن، جموں،موبائل نمبر؛9622304549

’’شہر سنسان ہے،کدھر جائیں‘‘
یار حیران ہے،کدھر جائیں
اب لگا تے نہیں گلے وہ بھی
جن سے پہچان ہے، کدھر جائیں
بیٹھ کر اب کہاں کریں باتیں
باغ ویران ہے، کدھر جائیں
آ چُکے ہیں وہاں،جہاں آگے
کھیت کھلیان ہے،کدھر جائیں
ٹھہر جائو منیؔ یہاں پر ہی
رستہ انجان ہے،کدھر جائیں

ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
بھدرواہ جموں
موبائل نمبر؛9906397577

میٹھی تری یادیں اور وہ سایۂ دار خطوط
سنبھال کے میں نے رکھے ہیں جاگیر کی طرح

مل نہیں پائے گر وہ کبھی تو فکر کی بات نہیں
حجرئہ دل میں رکھا ہے تصویر کی طرح

درد جدائی کا ہے اور نہ وہم اندھیرے کا
آتے جاتے جَگتی ہے اِک تنویر کی طرح

آہ وزاری سُلگے ناداں دل میں جس جس دم
لے آتا ہوں تجھ کو اِک تدبیر کی طرح

دیر کبھی جو ہوجائے گھر آنے میں عثمانؔ
تو اسکی اک نظر ہوتی ہے شمشیر کی طرح

عثمان طارق
ڈول کشتواڑ
موبائل نمبر؛9797542502

یہ کیسی بھیڑ ہے کیا ماجرا ہے
کوئی بتلائے گا کہ کیا ہوا ہے
مخالف چل رہی گرچہ ہوا ہے
ہمارے ساتھ میں ماں کی دعا ہے
میں ہنستے ہنستے سولی پر چڑھوں گا
مگر بتلادومیری کیا خطا ہے
میں لالچ کرکے آخر کیا کروں گا
ملے گا جو مقدر میں لکھا ہے
جسے سب باد سرسر کہہ رہے ہیں
بہارِ نو کے قدموں کی صدا ہے
مری بدصورتی پر طنز نہ کر
کوئی ہے جو دل وجاں سے فدا ہے
خدا چاہے گا جب ہی ختم ہوگی
کورونا نام کی جو یہ وبا ہے
رقم نذرانے کی تو کھول کر دے
لفافہ میں سدا دھوکا ہواہے

رہبرؔ گیاوی
بک امپوریم ،سبزی باغ ،پٹنہ بہار
موبائل نمبر؛9334754862

جلتا بجھتا دیا ہے آنکھوں میں
ہر سویرا نیا ہے آنکھوں میں

اک ستارہ کیا ہے آنکھوں میں
آسماں گھِر گیا ہے آنکھوں میں

میں نے جو خواب چن کے رکھے تھے
زخم اُس نے دیا ہے آنکھوں میں

اب بھرم آنسوؤں کا رہ جائے
درد دل کا لیا ہے آنکھوں میں

دل اگر مطمئن ہے تو شاہیں ؔ
خوف اتنا کیا ہے آنکھوں میں

رفعت آسیہ شاہین
وشاکھاپٹنم آندھرا پردیش