اگر کبھی کسی طرح سے جی بہل جاتا
رکا پڑا کوئی آنسو ہوں میں نکل جاتا
بچھڑنا اپنا مقدر ازل سے ہے لیکن
یہ سانحہ کسی اگلی گھڑی کو ٹل جاتا
قدم ذرا سے کسی اور سمت اُٹھ جاتے
ہمیشہ کے لیے گھر کا پتہ بدل جاتا
اسے میری ہی ضرورت اگر رہی ہوتی
کسی بھی شکل میں، وہ چاہتا، میں ڈھل جاتا
تمہارے ہونے سے صحرا میں پھول کیا کھلتے
مرے مزاج کا موسم ذرا بدل جاتا
قدم قدم پہ سہارے کا ہو گیا محتاج
نہ تھامتا مجھے کوئی تو میں سنبھل جاتا
نہ انتظار میں کر وقت رائیگاں بلراجؔ
کسی کے آنے کا اب تک پتہ تو چل جاتا
بلراج ؔبخشی
عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی، اُدہم پور
(جموں کشمیر)، موبائل نمبر؛ 09419339303
پانا بھول کے کھونا سیکھو
پیار کیا تو رونا سیکھو
ہولے ہولے سُکھ چِھنتا ہے
دُکھ کا خوگر ہونا سیکھو
عشق ہوا تو چھاؤں چھوڑو
تپتی دھوپ میں سونا سیکھو
چھت کو تکتے رات کٹے گی
تکیہ آج بگھونا سیکھو
دھوکے سے پرہیز ہے لازم
بیج وفا کے بونا سیکھو
فلکؔ یہ دوجے پر کیوں تہمت
اپنا دامن دھونا سیکھو
فلکؔ ریاض
حسینیؓ?کالونی،چھتر گام،کشمیر
موبائل نمبر؛9066250817
ڈوبنا ہوگا کبھی ہم کو اُبھرنا ہوگا
زندہ رہنا ہے تو ہر گام پہ مرنا ہوگا
شبنمی لہجے کے اب لوگ کہاں ملتے ہیں
اب تو اِس شہر میں دل سنگ ہی کرنا ہوگا
ہم مسافر ہیں یہاں تھوڑا سا رُکنا ہے ہمیں
پاس ہے گائوں جہاں صدیوں ٹھہرنا ہوگا
دیر تک رہتا نہیں سر پہ چمکتا سورج
اس کو جانا ہے اُفق پار اُترنا ہوگا
گرترے نام کی قندیل مرے ساتھ رہی
پھر سیاہ رات میں ہرگز نہیں ڈرنا ہوگا
شوقِِ جنت تو نہیں ہے کوئی سستا سودا
پہلے اک آگ کے دریا سے گزرنا ہوگا
سوچ کا زائویہ اب کچھ تو بدل دیں بسملؔ
ورنہ حالات کے صحرا میں بکھر نا ہوگا
خورشید احمد بسملؔ
تھنہ منڈی راجوری
موبائل9622045323
چند لمحوں کی روشنی کے لیے
روز مرتے ہیں زندگی کے لیے
جسکو کہتے ہیں زندگی ہم لوگ
اک معمہ ہے آدمی کے لیے
ہر گھڑی محھ سے دور رہتا ہے
جس کو مانگا تھا ہر گھڑی کے لیے
ہم اْسی راہ کے مسافر ہیں
جو ہے مشہور تیرگی کے لیے
تم محبت کی بات کرتے ہو
ہم ہیں بدنام بندگی کے لیے
اس کو پا لینا اس کا ہو جا نا
اتنا کا فی ہے خودکشی کے لیے
اشک سے بھی غزل لکھی جائے
لازمی ہے یہ شاعری کے لیے
وہ ہے عرفانؔ،غیر ممکن ہے
اس کو پا لینا ہر کسی کے لیے
عرفان عارف
اسسٹنٹ پروفیسر اْردو
موبائل نمبر؛9858225560
زمانہ آجکل بے آسرا ہے
گزرتا ہے جو لمحہ بے وفا ہے
بشر بچھڑا ہوا ہے راستے سے
نہ مقصد ہے نہ کوئی مدعا ہے
تیرا دستِ جفا تم کو مبارک
ستم تم نے کیا ہم نے سہا ہے
کوئی بسمل، کوئی گھائل، کوئی گُم
تمہاری بزم میں سب کچھ روا ہے
دلیروں کو ہی ملتی ہیں سزائیں
اُسے کیا خوف جو نازک ادا ہے
نہ گلچیں آگیا بجلی کی زد میں
عنا دل کا نشمن کیوں جلاہے
ختم ہونے کو ہیں تاریک راتیں
دیا ہادیؔ کا بستی میں جلا ہے
حیدر علی ہادیؔ
3 سید کالونی گلاب باغ
فون نمبر8803032970;
کُچھ خیالوں میں ایسے گُم کیوں ہو
کھوئے کھوئے سے آج تُم کیوں ہو
ایسی کیا خوبی، جو مجھ میںہے
میرے اِتنے قریبِ تم کیوں ہو
کاش اِس سے کبھی نِکل آئو
اپنی ہی زندگی میں گُم کیوں ہو
بارِ خاطر نہ ہو تو بتلائو
بے سبب مُجھ سے روٹھے تُم کیوں ہو
ایسا آخر کہا، کِس نے کہا
یُوں پریشان اِتنے تُم کیوں ہو
اِس کا موسمِ بدل بھی سکتاہے
غم کی گہرائیوں میں گُم کیوں ہو
باوجود اِس کے ہے تمہارا ہتاشؔ
اِس قدر اُس سے دُور تُم کیوں ہو
پیارے ہتاشؔ
موبائل نمبر؛8493853607
دور درشن گیسٹ لیٹ، جانی پورہ جموں
تصور میں کوئی خاکہ اُبھر آئے غزل لکھنا
کوئی پیکر جو لفظوں میں اُترجائے غزل لکھنا
قلم کاروں نے پیچیدہ مسائل حل کئے اب تک
چمن پھولوں سے ہر سُو جب نکھر جائے غزل لکھنا
نہ جانے کیسی اُلجھن میں ہماری زندگی گزری
ذرا پَل ٹھہر جائو، یہ سنور جائے غزل لکھنا
خلائوں سے اگر تم چاہتے ہو دوستی کرنا
حدِ افلاک سے اوپر نظر جائے غزل لکھنا
مسافرؔ زندگانی کا یہ خاکہ خوبصورت ہے
کسی کے شوخ رنگوں سے یہ بھر جائے غزل لکھنا
قریشی وحید مسافرؔ
باغات کنی پورہ، چاڈورہ
موبائل نمبر؛9419064259
نظروں میں حصارات تھے اور تم بھی وہی تھے
بگڑے ہوئے حالات تھے اور تم بھی وہی تھے
آنکھوں میں مقالات تھے اور تم بھی وہی تھے
نظروں کے حوالات تھے اور تم بھی وہی تھے
کچھ بھی نہیں رکھاتھا دغاباز جہاں میں
لوگوں کے مفادات تھے اور تم بھی وہی تھے
سولی پہ مرا تن تمہیں رُکنے نہیں دے گا
سارے ہی خیالات تھے اور تم بھی وہی تھے
اشکوں میں چھپا رکھا تھا بس نام تمہارا
ہونٹوں پہ سوالات تھے اور تم بھی وہی تھے
دل میں دبی حسرت نے جنم پھرسے لے لیا تھا
نکھرے ہوئے جذبات تھے اور تم بھی وہی تھے
آسیب زدہ زندگی کے بکھرے سفر میں
بس ایسے ہی خدشات تھے اور تم بھی وہی تھے
جکڑی ہوئی زنجیر میںتڑپی رہی ضیاءؔ
سب تیرے کمالات تھے اور تم بھی وہی تھے
عذرا ضیاءؔ
طالبہ شعبہ اُردو، کشمیر یونیورسٹی سرینگر