غزلیات

خلوت کدے میں چاہ کے نا عکسِ غیر رکھ
اپنے مکاں میں کوئی نہ اپنے بغیر رکھ 
پکی سڑک پہ دھوپ نے مرہم بچھا دیا
تو آبلوں کا سوچ نہ بے فکر پیر رکھ
دشتِ جنوں کے ظرف میں ہو آشنائے غم
پاؤں کی ٹھوکروں پہ تماشائے سیر رکھ
روزن کُھلے تو عکس کا ہمزاد ہوں عیاں 
پھر چاہے  زیرِ آنکھ حرم یا کہ دیر رکھ
مانا کہ تجھ پہ وقت ذرا سا ہے مہرباں
اپنی انا سے کچھ تو میرے یار بیر رکھ
پیہم سنائی دیتی ہے رختِ سفر کی بات
کچھ تو ندی کے پاس نشاں تیر تیر رکھ
تُوشاعرِ خیال ہے شیداؔ تو کیا ہوا
الفاظ میں تو وسعتِ پروازِ طیر رکھ
 
علی شیداؔ
نی پورہ، نجدون ،اننت ناگ
کشمیر ، موبائل نمبر؛7889677765
 
 
مری اُن سے مل گئی تھی جو نگاہ چلتے چلتے 
مرا دِل وہیں لُٹا تھا سرِراہ چلتے چلتے
 
تھے تو اجنبی ہی دونوں ہُوا پھر یہ جانے کیونکر
 میں نے پائی اُن کے دِل میں تھی پناہ چلتے چلتے
 
مجھے یاد وہ گھڑی ہے اُسے بھول جائوں کیسے 
جو نکل پڑی مرے دِل سے تھی آہ چلتے چلتے
 
ہے عجب یہ دِل لگی بھی ہے لُٹاقراردِل کا
ہوئی میرے دِل میں پیداتھی یہ چاہ چلتے چلتے
 
وہ نہ کاش آئے ہوتے مرے سامنے اچانک 
تونہ لوُٹ لیتی دِل کو وہ نگاہ چلتے چلتے
 
میں نہ اُن کو بھول پایا، رہی دِل لگی برابر
ہوا اُن سے مل کے وعدے کا نباہ چلتے چلتے
 
میں نے کیوں کیا کچھ ایسا جو لگا بُرا ہے اُن کو
ہوا مجھ سے کیوں ہے سرزد یہ گُناہ چلتے چلتے
 
تری اے بشیرؔ بگڑی کبھی اب بنے گی شاید
کہ ہوئی قبول تیری ہے یہ آہ چلتے چلتے
 
بشیر احمد بشیرؔکشتواڑی
موبائل نمبر؛7006606571
 
 
چمن اجڑا سا کیوں ویران سا کیوں ہے
خموشی میں نہاں طوفان سا کیوں ہے
بہ ظاہر تو نہیں ہے آرزو کوئی
مگر دل میں کوئی ارمان سا کیوں ہے
نہ جانے مجھ سے کیسی ہے اسے نسبت
وہ مدت سے مرا مہمان سا کیوں ہے
نوازا ہر ستم سے آپ نے مجھ کو
یہ مجھ پر آپ کا احسان سا کیوں ہے
ہزاروں بار پہلے بھی ملے ہیں ہم
مگر وہ آج کچھ حیران سا کیوں ہے 
ہوا ہے جو نہ سوچا تھا نہ چاہا تھا
یہی تقدیر کا فرمان سا کیوں ہے
وہ اک اک بات سے واقف ہے گو عارفؔ
مگر ظاہر میں پھر انجان سا کیوں ہے
 
عرفان عارفؔ
صدر شعبہ اُردو، کامرس کالج جموں
موبائل نمبر؛9682698032
 
 
اُلجھا ہوں اِس طرح میں خیال و گمان سے 
ہوش و خرد پٹخنے لگے سر چٹان سے
اب کے پروں کو کھول تخیل کے مرغ دیکھ
اپنے ہنر کی ساکھ ہے تیری اُڑان سے
ہے سانحہ یہی کہ زمیں کی طلب میں ہم
بے ساختہ بچھڑتے گئے آسمان سے
شیریں سخن سخن میں پرونے کے واسطے
اِک جنگ لڑنا پڑ تی ہے گویا زبان سے
یوں آرہے ہیں میری طرف لشکرِ خیال
نکلے ہوں جیسے تیر ہزاروں کمان سے
صیاد نے قفس میں اُنہیں بھی کیا ہے قید!
خوش تھے جو عندلیب چمن کے زیان سے
امجدؔ بھٹکتا ہے اُسی رستے پہ رات دن
گزرے یقین و زعم کے جو درمیان سے
 
امجد ؔاشرف
شلوت ، سمبل سوناواری، بانڈی پورہ
موبائل نمبر:  7889440347
 
 
ایسے ہُوا ویسے ہُوا شام ڈھلی صبح ہوئی
کام کِیا جام پیا شام ڈھلی صبح ہوئی
 
آنکھ لڑی پردہ ہٹا دھوم مچی پیار ہوا
دشت چلا، مجنوں بنا شام ڈھلی صبح ہوئی
 
کون ملا کیسے ملا کس کو خبر کس کو پتہ
روز مگر دل یہ جلا شام ڈھلی صبح ہوئی
 
زیست کے پل کیسے کٹیں، تیرے سوا جانِ جہاں
میں نے کہا اس نے سُنا شام ڈھلی صبح ہوئی
 
عمر مری کیسے کٹی دوست سنو آؤ سنو
بات ہے یوں اس پہ مَرا شام ڈھلی صبح ہوئی
 
خواب بُنیں، بُنتے رہیں بُنتے رہیں پھر یہ ہوا
گُل سا بدن خاک ہوا شام ڈھلی صبح ہوئی
 
اتنے میں بسملؔ میاں کافور ہوا دل کا غبار
اس نے فقط رقعہ پڑھا شام ڈھلی صبح ہوئی
 
سید مرتضیٰ بسمل
پیر محلہ شانگس اسلام آباد، اننت ناگ
موبائل نمبر؛6005901367
 
 
وقت ، چہرے پہ ترے نقش وہ کر جائے گا
آئینہ، دیکھ کے صورت تری ڈر جائے گا 
 
تجھ کو جینا ہے تو پربت کی طرح حوصلہ رکھ
ورنہ تنکوں کی طرح دیکھ ، بکھر جائے گا
 
زندگی سے تو بچا لے گا تُو دامن، لیکن
بچ کے پھر موت کے پنجوں سے کدھر جائے گا
 
پھول سے چہروں کی بستی میں شیش محلوں میں
لوگ پتھر کے ملیں گے ،تُو اگر جائے گا
 
مسکرائیں گے مرے گیت ترے ہونٹوں پر
میرا ہر شعر ترے دل میں اُتر جائے گا
 
چھوڑ کر دنیا کی رنگین فضاؤں کو رفیقؔ
تو بھی جانا نہیں چاہے گا،مگر جائے گا
 
رفیقؔ عثمانی
 آکولہ، مہاراشٹرا
 
 
گردشِ ایّام نے بہکا دیا کیوں کر مجھے
پا بہ گِل کا پھول مہکا دیا کیوں کر مجھے
 
چھوڑ دوں کس کے بھروسے کون سنتا ہے مری
آتشِ پنہاں نے اب دہکا دیا کیوں کر مجھے
 
اس ہجومِ رہ گزر نے چھین میرا سب لیا
دوستی کے بھیس میں سِسکا دیا کیوں کر مجھے
 
اُگ رہا ہے درد ِ دل میں اعتبارِ دردِ شوق
شوقِ دل نے کیا پتہ جھنکا دیا کیوں کر مجھے
 
داغِ ہستی نے سکھایا کار گاہِ کُن فکاں
اے حیاتِ جاوِداں اُچکا دیا کیوں کر مجھے
 
ہے ہجومِ نا اُمیدی فتنۂ آشوبِ خیز
اس خیالِ خام نے جُھلسا دیا کیوں کر مجھے
 
سایہ رو نقشِ کُہن آگے مرے یاورؔ حبیب
عہدِ فردا آنکھوں میں جَھلکا دیا کیوں کر مجھے
 
یاورؔ حبیب ڈار
 بڈکوٹ ہندوارہ
موبائل نمبر؛ 6005929160
 
 
تو ہی ہے ماضی تو ہی مستقبل ہمارا
تو ہی دریا ہے تو ہی ساحل ہمارا
درمیاں صدیوں کی دوری ہی سہی
عشق مگر تھا ازل سے کامل ہمارا
قربتیں بھی راس نہیں اس کمبخت کو
فراق میں بھی مطمئن نہیں دل ہمارا
ملتی ہیں وحشتیں بخشش میں جہاں
وہ مقامِ جاں ہے کوچۂ قاتل ہمارا
مآلِ کشمکش کا تذکرہ قطاً نہ کیجئے
سوائےغمِ یار کے نہیں کچھ حاصل ہمارا
معنی وعدۂ فردا کا نہیں سمجھا بیچارہ
بے وجہ بے چین رہتا ہے دل ہمارا
عشق وہ جنوں کا دشت ہے کہ جہاں
لوٹ کے آنا ہے ذرا مشکل ہمارا
قصۂ کشمکشِ دل میں اکثر شہریارؔ
کمبخت اپنا ہی مقدر ٹھہرا مقابل ہمارا
 
توصیف شہریار
سریگفوارہ اننت ناگ
موبائل نمبر؛7780895105
 
کیا بات آسمان نے زمیں سے کہی ہے
دن ختم ہوا رات اب رونے کو رہی ہے
 
یہ دورِ نو کا کھیل ہے، پوتی ہے لیپ کر
چہرے پہ مرے آتی نظر تم کو خوشی ہے
 
مہکاتے سفر تیرا وہ ہر ہر قدم ضرور
پھولوں پہ جابجا مگر اب دھول جمی ہے
 
روٹھی ہے مجھ سے منزلِ جاناں، وجہ ہے یہ
رہبر کا سراپا ہی اب بے راہ روی ہے
 
صورتؔ کبھی تو پاس تھی یہ زندگی مری
بگڑا جو وقت، اب وہ مجھ سے دور کھڑی ہے
 
صورت ؔسنگھ
رام بن، جموں،موبائل نمبر؛9622304549
 
 
یہ خاموشی تیری ترک تعلق کی علامت ہے
مری خاطر مری جاں یہ قیامت ہی قیامت ہے
 
کوئی وعدہ نبھاے گا ،نہیں مجھ کو یقین تجھ پر
مجھے ہے تجربہ، وعدے سے پھرنا تیری عادت ہے
 
سلگتے دن،شبِ ہجراں،ادھورے خواب،خاموشی
بتا کیا کیا گِناؤں مجھ پہ جو تیری عنایت ہے
 
لہو کے گھونٹ پی لیکن زباں کو تو نہ جنبش دے
دیارِ یار میں رہنے کی ہم کو یہ ہدایت ہے
 
میسر سب ہے لیکن کس پہ اِتراؤں بتا راشدؔ
کہاں ہے جان بھی اپنی،کسی کی یہ امانت ہے
 
راشدؔ اشرف
کرالہ پورہ چاڈورہ، کشمیر
موبائل نمبر؛9622667105