غزلیات

 

نفع نقصاں کے اُصولوں سے بغاوت کی ہے
ہم نے اس شہر میں اِک طُرفہ تجارت کی ہے
کہاں باقی رہی رِشتوں میں محبت کی نمی
دل پہ برپا یہاں اپنوں نے قیامت کی ہے
کیوں نہ محفوظ بلاؤں سے رہے گھر میرا
میں نے اس گھرمیں برسوں سے تِلاوت کی ہے
دُور شہروں میں کہاں پاؤگے نیندیں یارو
غمزدہ رہتا ہے وہ، جس نے بھی ہجرت کی ہے
یہ الگ بات کہ پامال ہوئے جاتے ہیں
بات یہ کل کی ہے، ہم نے بھی حکومت کی ہے
بھائی سے بھائی لڑے،گولی چلے، خُون بہے
کسی دانا نے کہاں ایسی سیاست کی ہے
مصلحت کایہ تقاضا ہے کہ چُپ ہیں ورنہ
ہم نے برجستہ صداقت کی وکالت کی ہے
لوگ مر جاتے ہیں جنت کی طلب میں بسملؔ
پوچھو اُن سے کسی مسکیں سے محبت کی ہے

خورشید بسملؔ
تھنہ منڈی، راجوری،جموں
موبائل نمبر؛9086395995

 

میرے دل میں ہنر نہیں ہوتا
تو بھی اہلِ نظر نہیں ہوتا
میری منزل تو مل ہی جانی تھی
تو اگر ہمسفر نہیں ہوتا
اب حلق تک یہ جان آ نکلی
اُس کو اب تک اثر نہیں ہوتا
عمر اتنی سفر میں گزری ہے
اب کہیں سے گزر نہیں ہوتا
میرے حجرے میں وہ بھی آتا ہے
جس کی قسمت میں گھر نہیں ہوتا
اپنے ہاتھوں سے میں جلا دیتا
یہ اگر تیرا گھر نہیں ہوتا
میرے کمرے میں روشنی بھی ہے
اب یہ الزام سر نہیں ہوتا
غم کے صحرا میں ایک دریا ہو
جس میں کوئی بھنور نہیں ہوتا
سب تمہارے تو ہو گئے جاذؔب
تو کسی کا مگر نہیں ہوتا

جاذب جہانگیـــــــــر
تیلیاں،سوپور، بارہمولہ
موبائل نمبر؛7006706987

وہ حب جس کی ذکیؔ تمثیل بحرِ بے کراں تک ہے
مآل اس کا بھی صد افسوس بس اک داستاں تک ہے
مکاں سے لا مکاں تک ہے زمیں سے آسماں تک ہے
ہماری ذات کی وسعت خدا جانے کہاں تک ہے
مری خانہ خرابی پر نہ جا قسمت ہے یہ میری
مری تخئیل کی تعمیر بھائی لا مکاں تک ہے
تو پھر کیونکر نہ خوشبو دیں وجودَ و فن کی میراثیں
علاقہ ہی مرا جبکہ چمن سے گلستاں تک ہے
ملاقاتوں میں تیری والہانہ پن نہیں ملتا
تو کیا تیری محبت محض اے ہمدم زباں تک ہے
گریزاں ہے وہ میرے نام کی پرچھائیوں سے بھی
نہیں معلوم تھا مجھ سے اسے نفرت یہاں تک ہے
نشانہ جس کا بس میرا تنِ نازک ہے اے یارو
رسائی ایسے ہر اک تیر کی اُس کی کماں تک ہے
مجھے مت دیکھ تو پرواز کی عظمت پہ رکھ نظریں
مری گردِ سفر تاروں کی دلکش کہکشاں تک ہے

ذکیؔ طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج،بارہ بنکی،یوپی

کون یہ گھر میں آتا ہے
گھر سونا مہکاتا ہے

پہلے اُٹھاتا ہےچلمن
پھر کچھ خواب جگا تا ہے

یوں تو سبھی سے ملاتا ہے
کشٹ بہت اُٹھواتا ہے

اپنے جلا کر پر سارے
کتنا پھر پچھتاتا ہے

لے کے گیا سُکھ چین مرا
دیکھیں کب لو ٹا تا ہے

مشتاق مہدی
مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر
فون نمبر9419072053

فرش و در و دیوار سے ڈر لگتا ہے
اب اس حصارِ نار سے ڈر لگتا ہے
جھکتے ہو پر آدابِ سجدہ تک نہیں
دل تجھ بتِ پندار سے ڈر لگتا ہے
بدلی ہے، جب سے رنگ، یہ بزمِ جہاں
مجھ کو گل و گلزار سے ڈر لگتا ہے
اک جان ہی تو ہے، وہ مقتل ہی مگر
کس کو دیارِ یار سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو اے بادِ شام تو لے چل کہیں
اب اپنے ہی گھر بار سے ڈر لگتا ہے
یوں تو پتھر ہیں ہم مگر اے سنگ دل
معصوم چشمِ زار سے ڈر لگتا ہے

توصیف شہریار
اننت ناگ، کشمیر
[email protected]

اپنا روٹھا یار مناؤں رات گئے
ٹوٹے دل کا حال دِکھاؤں رات گئے
وقت لگے گا اُس کو تو سمجھانے میں
اُس کی چاہت اور بڑھاؤں رات گئے
ایسا کرنا کوافی وافی پی لینا
اپنے سارے شعر سُناؤں رات گئے
دن کو تھا ناراض منایا کب تُو نے
اب میں کیسے فون اٹھاؤں رات گئے
کتُیا شاید ٹرین کے نیچے آئی ہے
بچے کو میں دودھ پِلاؤں رات گئے
کام سے اس کو فرُصت تھوڑی دیتا ہوں
موت کو گہری نیند سُلاؤں رات گئے
رات گئی تو بات بھی چھوڑو جانے دو
تجھ کو کیسے پیار سِکھاؤں رات گئے
فلکؔ کے تارے مجھ کو اکِ سگِریٹ پِِلا
چوری چوری کیا میں آؤوں رات گئے

فلکؔ ریاض
حسینی کالونی چھتر گام
[email protected]

عرش لکھوں کھبی میں بام لکھوں
نام تیرے حسین شام لکھوں

تیری اُلفت کا یوں کروں اظہار
سر سے ماتھے پہ تیرا نام لکھوں

ہائے مل جائے مجھ کو وہ کاغذ
جس پہ تیرا یہ احترام لکھوں

یوں اگر ہو ملن یہاں اپنا
تیرے قصے ہی صبح و شام لکھوں

طلحہؔ کو جستجو یہی ہے بس
اپنی پلکوں پہ تیرا نام لکھوں

جنید رشید راتھر طلحہؔ
اونورہ شوپیان

اس دل کی بے نوائی پہ یوں نہ ہنسا کرو تم
سدا دور رہے گا اس کوتاہی میں نہ جیا کروتم
اس دل کی آگ تم تک بھی پہنچ جاے گی
یوں لبوں کو سی کر تماشا نہ دیکھا کرو تم
تیری جدائی کا زخم ابھی بھرا بھی نہیں
یوں مٹھیاں بھر بھر کے نمک نہ لایا کرو تم
میرے دل کی گلیاں تیری ملکیت تو نہیں
یوں آتے جاتے ہمیں نہ روکا کرو تم
گزر گئے ہیں تیرے حق میں بولنےوالے
اس کہانی کا کیا بنے گا ،اب نہ سوچا کرو تم
راشدؔ تجھے یہ مٹی جذب ضرور کرلے گی
صیاد کے ان تیروں سے نہ ڈرا کرو تم

راشدؔ اشرف
کرالہ پورہ، چاڈورہ

عجب دیکھو چمن کا یہ نظارہ ہے
خزاں میں بھی بہاروں کا اِ شارہ ہے

فلک پہ ماہِ نو کیا مسکرایا ہے
ہوا روشن جہاں دیکھو ہمارا ہے

ہوا نفرت کی رنگ اپنا بدل رہی ہے
فضائے اُلفت نے رنگ کیسا نکھارا ہے

خزان میں بھی یہ گلشن آخر مسکرایا ہے
میرے مالک یہ دلکش اعجاز تمہارا ہے

جہاں بھی قادریؔ تم دیکھتے ہو
ہر ایک منظر درخشاں اور پیارا ہے

فاروق احمد قادریؔ
کوٹی ڈوڈہ

یہ تمہاری زُلف ہو امیں لہرائی
کہ گھٹا کالی ساون میں گِھر آئی

تیرا مُسکراناہے تبسم گُلوں کا
تیرے رُخ کی رنگت پھولوں کی لالی

غم اور خوشی منسوب ہیں تُم سے
مُنسوب تم ہی سے ہے محفل اور تنہائی

تمہاری اِک نظر کہ میری جانب
ارمان کیا کیا ہے دِل میں جگائی

دِل ہے فریفتہ تم ہی پر صورتؔ
نظر ہے تم سے جب سے ملائی

صورتؔ سنگھ
رام بن جموں
موبائل نمبر؛9622304549