آمدِ ماہِ رمضان

اے خوش نصيبويہ مژدہ سن لو کہ ماہِ رمضاں بُلارہا ہے
اگر خطاؤں میں گُم ہوئے ہو یہ دیکھو رستہ دِکھا رہا ہے
سکونِ دل کا کوئی بھی ساماں جو تم نے ڈھونڈا مگر نہ پایا
یہاں پہ آکے جو نم ہوں آنکھیں تو راز اس کا بتا رہا ہے
خدا سے دوری ہوئی ہے جب سےغموں نے آکر ہے ڈیرا ڈالا
خلاصی ہم کو ملے گی کیسے یہ ماہِ رمضاں سِکھا رہا ہے
دلوں کو روشن کریںگے کیسے جو اُجڑے اُجڑے سے ہوگئے ہیں
تلاوتوں سے کرو چراغاں یہ ہم کو قرآں سنا رہا ہے
ترا سجود و قیام کرنا تلاوتوں کو رفیق رکھنا
خدائے واحد بعرشِ معلیّ ملائکہ پہ جتا رہا ہے
بہارِ نو ہے یہ نیکیوں کا رواں ہے رحمت کا اس میں دریا
جسے بھی دیکھو عبادتوں سے رضاءِ مولا کما رہا ہے
بھٹک گئے ہیں جو  راہِ حق سے نظر سے اوجھل ہوئی ہے منزل
خدا کے راہی بنو گے آؤ خدا کا قرآں بلا رہا ہے
جوانی گزری ہے غفلتوں میں تہی ہے دامن عمل سے اپنا
اٹھو یہ موقع عزیز جانو کہ ماہِ رمضاں جگا رہا ہے
خدا کے در پر سحر کے لمحے ذرا تو مانگو وہ دور کردے
قنوطیت کا جو خوف دل میں ہمیشہ تم کو ستا رہا ہے
بچشمِ تر ہر خدا کا بندہ خلوصِ دل سے خدا کے در پر
بِھگو کے دامن ندامتوں کا وہ اپنے رب کو منا رہا ہے
یہ رحمتوں کا ہے وہ مہینہ پناہ میں اس کی جو آگیا ہے
وہ دیکھو اللہ خطائیں اس کی کرم سے اپنے مٹا رہا ہے
خدایا اُمت پہ فضل فرما بہت یہ کمزور ہو چکی ہے
جہاں بھی دیکھو کوئی بھی آکر اسے برابر دبا رہا ہے
خدایا دینِ مبیں سے رشتہ ہمارا کیوںکر ہوا ہے پسپا
فریبِ دنیا کا کھیل کوئی ہمیں بھی شاید لُبھا رہاہے
جو دل سے توبہ ادا ہوئی ہو اثر یہ اس کا ضرور ہوگا
بفضلِ باری یہ ماہِ رمضاں گناہ تیرے جلا رہا ہے
یہ خوش نصیبی ہے روزہ دارو کہ بابِ ریّان کا فرشتہ
بروزِ محشر برائے جنت بلند صدائیں لگا رہا ہے
جو قدر کی شب ہے اسمیں فاروقؔ غفلتوں میں نہ کر تو ضائع
نزولِ قرآں کا نور اس میں وہ دیکھو دنیا پہ چھا رہا ہے
 
ڈاکٹر ابو الیفہ فاروق احمد قاسمی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ عربی،یونیورسٹی آف لداخ
موبائل منبر؛9797295005