سرزمین کشمیر دنیا بھر میں اپنے حسن و جمال کیلئے نامور ہے اور یہاں کی مٹی کی زرخیزی کی شہرت چہار دانگ ِعالم تک پہنچ چکی ہے۔ اسی حسن و جمال کے نظاروں میں اس مٹی نے جن عظیم شخصیات کو جنم دیا ہے، اُن سے خطہ ٔ کشمیر کی عظمت و شہرت دوبالا ہوگئی ۔ انہی خاصان ِ خدا، سخن ور، علما ، فضلاء، صوفیا اور اہل دانش وماہرین فنون کی کہکشاں میں حضرت میر سید عزیز اللہ حقانی ؒ ایک خاص درجہ رکھتے ہیں ۔ان کی ولادت ۱۱؍ ربیع الثانی ۱۲۷۸ھ مطابق ۱۸۶۱ء کو ہوئی۔ ان کے والد گرامی حضرت میر سید شاہ محی الدین حقانی ؒتھے جو خاندان ِحقانیہ میں نمونہ ٔ اسلاف اور ایک عظیم ولی اللہ تھے۔ ان کی ولادت کا دور کشمیر کی تاریخ میں انتہائی غلامی کا زمانہ تھا جب کشمیر سکھوں کے بعد ڈوگرہ راج کے ہتھکنڈوں میں پابہ زنجیر تھا۔ ڈوگرہ مہاراجاؤں کے عہد میں یہاں کے سماجی، دینی اور علمی خاندانوں کو ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ خاندان حقانی بھی ان کی زد میں تھا۔ گھریلو سطح پر بھی حضرت عزیز اللہ حقانیؒ کو بہت سارے مصائب کا سامنا کرنا پڑامگر قومی اور ذاتی مشکلات نے حضرت حقانیؒ کے قلم اور فکر کو اور توانائی اور جلا بخشی کہ اس تاریک دور میں وہ ایک تابندہ ستارے کی مانند چمک اُٹھے۔ آسمانِ علم ا دب پر حقانیؒ بیک وقت عالم، صوفی ، ادیب ، مفکر ، مورخ کی تمام تر خصوصیات اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے شعر و ادب، علم و عرفان، تاریخ و جغرافیہ جیسے شعبوںمیں اپنے زریں قلم سے لافانی شاہکار تخلیق کئے۔ اُن کی تصانیف وہ عظیم سرمایہ ہے جو علماء و عرفاء کے ساتھ ساتھ عوام و خواص کے لئے فوائد کا گنج گراں مایہ ہیں۔ ان میںتاریخ ِعالم ، دیوانِ حقانی، ممتاز بے نظیر، جواہر عشق اور گلدستۂ بے نظیر، روضت الاشہداء قابل ذکر ہیں۔ ان کا وصال 14؍ماہ ذی الحجہ ۱۳۴۶ھ کو ہوا ۔ چودھویں صدی عیسوی میں حضرت امیر کبیر میرسید علی ہمدانی ؒ کی آمد کشمیر کے ساتھ ہی خاندانِ حقانیہ کی علمی و رحانی خدمات کا سلسلہ شروع ہوا۔جن بزرگوں سے ملاقات کاشرف اور سلاسل سے ربط وتعلق کا عزیز اللہ حقانیؒ کو افتخار حاصل ہوا ،اُن میں دہلی میں حاجی محمد علی فتح پوری، شیخ المشائخ میاں محمد شفیع الاکنگال قدس سرہ اپنے والد گرامی سے قبرویہ قادریہ چشتیہ ،ہمدانیہ اور سہر وردیہ سلسلوں کی تربیت و بیعت عطاء ہوئی۔ اگر چہ تصوف ا ور ولایت کے مقامات الفاظ کے پیر اے میں سمائے نہیں جاتے ہیں لیکن ان کے کلام سے اس کے یقین کا اظہار ہوسکتا ہے۔ تاریخ نویسی میںحضرت عزیز اللہ حقانی ؒکو منفرد اور مخصوص رتبہ حاصل ہے۔ اُن کی شاہکار تصنیف’’ تاریخ عالم‘‘ جو غالباً تواریخ نویسی میں برصغیر میں اپنی ثانی نہیں رکھتی، جسے مورخین نے کہیں کہیں تحفہ الکبریٰ کا نام بھی دیا ہے۔ا س میں حضرت آدم ؑ سے لے کر تاریخ اسلام اور مسلم سلطنتوں کا احوال درج ہے۔ موصوف نے تاریخ ہندبھی تحریر کی ہے جس میں کشمیر کی تاریخ کو بھی تفصیلاً بیان کیا ہے۔ اس معرکتہ الآراء تصنیف میں جن ممالک کی تاریخ کا بیان ہوا، اُن کی جغرافیہ کا نقشہ بھی کھینچا گیا ہے ، کشمیر کے نباتات و جمادات، یہاں کی مٹی ، زمین او ر اس کے خواص، پیداوار، جڑی بوٹیوں اور پیڑ پودوں، ان کے طبی فوائد طیور و حیوانات ، باغات، عوام کے پیشے، پیشوں کے لوازمات وغیرہم کا ذکر اس تاریخ کے پانچویں جلد میں ہوا ہے جو تاریخ کشمیر سے منسوب ہے۔مورخ حقانیؒ کی تصنیف کردہ تاریخ کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے روایتی واقعات نگاری سے ہٹ کر اس فن کو ایک نئی جلا عطا کی۔ ان کا قلم بادشاہوں اور حکمران طبقے، اُن کے محل خانوں کے درودیوار کی نقش و نگاری سے باہر آکر عوام اور عوام سے متعلق حالات و کوائف کو اپنی تاریخ میں سمیٹ گیا ہے۔سماجی تاریخ کو حکمرانوں کی تاریخ پر ترجیح دینے کی سوچ کے تحت انہوں نے سیلاب نامہ، نار نامہ اور درویش نامہ تالیف فرمایا ہے۔ ان رسالوں میں حضرت حقانی نے کشمیر میں قدرتی آفات سے عوام پر ٹوٹ پڑے مصائب کا ذکرو ضاحتاً کیا ہے۔ فن تاریخ نویسی کے قواعد و ضوابط کا لحاظ رکھتے ہوئے جو ماخذ اور ذرائع معلومات حضرت حقانی نے تاریخ کو ترتیب دینے میں صدق وصفاکی کسوٹی پر قریباً بیس برس کے عرصے تک جو محنت شاقہ اٹھائی، اس سے’’ تاریخ عالم ‘‘ایک بنیادی اور مستند ماخذ کا مقام حاصل کرگئی ہے ۔ تاریخ کشمیر کا جو دور حضرت حقانی نے بہ چشم خود دیکھا اور جو دور اُن کے عہد سے قریب تر رہا ہے ، اُس زمانے کی مناسبت سے تاریخ عالم اہم حیثیت کی حامل ہے۔ کشمیر میں یہ دور سیاسی اتھل پتھل اور تنزل کا زمانہ رہا۔ اس دور کی عکاسی جس ڈھنگ سے مذکورہ تاریخ میں ہوئی ہے وہ حقانیؒ کا ہی خاصہ ہے۔ اپنے انسابِ سادات اور اربابِ ولایت کے بارے میںلطائف الحقانیؒ نام کے تحت سوانح لکھی ہے جس میں ان عظیم شخصیات کے حالات زندگی ان کے پیرومرشد ، خلفاء و غیرہم کا ذکر کیا ہے۔ مصنف نے اپنے حالات زندگی کا اجمالاً بیان کیا ہے ۔ غرض حضرت عزیز اللہ حقانی ایک عظیم اسلامی مفکرتھے۔ اسلامی مسائل پر اُن کے جو رشحات ِقلم موجودہیں، اُن سے موصوف کی بلندی ٔ فکر اور اثباتِ سوچ کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے’’ برہان المسلمین‘‘ تحریر کر کے ا پنے زمانے کے اہم دینی معاملات کی وضاحت کی ہے۔ حضرت حقانیؒ نے ’’روضتہ الشہداء ‘‘ قلمبند کی ہے ۔یہ اگر چہ مرثیہ کے صنف سے تعلق رکھتی ہے لیکن واقعے کو جس فلسفیانہ اور صوفیانہ پیر ائے میں تفسیراً پیش کیا ہے ،وہ اس تصنیف کو ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔حضرت میر سید عزیز اللہ حقانی نے بحیثیت مایہ ناز نعت گو شاعر بھی ایک یکتا مقام حاصل کیا ۔ اُن کی تصانیف ، جن کی تعداد کم و بیش بیس ہے، ابھی تک شائع نہیںہوئی ہیں۔ ریاست کے ادبی اورثقافتی اداروں کی سرد مہری کی وجہ سے یہ سرمایہ اشاعت پذیر نہ ہوسکا۔امید کی جانی چاہیے کہ ان کے رشحات قلم کو دیر سویر زیورِ اشاعت سے آراستہ کیا جائے گا ۔ ���