کچھ لمحے ایسے آتے ہیں
خود سے بھی ہم ڈر جاتے ہیں
آشائوں کا ساگر گہرا
جو ڈوبیں کب بچ پاتے ہیں
خود سے ہی خود روٹھ کے اکثر
یوں بھی دل کو بہلاتے ہیں
جیون اک مکڑی کا جالا
سلجھانے میں مرجاتے ہیں
جنکے گھر خالی دیواریں
شوق سے کب وہ گھر آتے ہیں
جن کو آنکھوں پر رکھا تھا
آنکھیں ہم کو دکھلاتے ہیں
درد دیئے کچھ اُس نے ایسے
خون کے آنسو برساتے ہیں
امکانات کو کھو کر بسملؔ
ہر لحظ اب پچھتاتے ہیں
خورشید بسملؔ
تھنہ منڈی، راجوری
موبائل نمبر؛9622045323
کس مستی میں اب رہتا ہوں
خود کو خود میں ڈھونڈ رہا ہوں
دنیا میں سب سے ہی جدا ہوں
آخر میں کس دنیا کا ہوں
میں توخود کو بھول چکا ہوں
تم بتلا دو کون ہوں کیا ہوں
یہ بھی نہیں ہے یاد مجھے اب
کیوں آخر روتا رہتا ہوں
اک دنیا ہے میرے اندر
اس میں ہی اب گھوم رہا ہوں
مجھ کو نیند ہے پیاری یا پھر
اْس کوبھی میں ہی پیارا ہوں
وہ رخ اپنا پھیر چکے ہیں
میں کس کو اپنا کہتا ہوں
ان لفظوں نے منزل چھینی
آپ چلیں.. میں بھی آتا ہوں
من تو خوشیاں بانٹ رہا ہے
میں قطرہ قطرہ روتا ہوں
خودکابوجھ ہے کتنا خود پر
کتنا خود کو جھیل رہا ہوں
مجھ کوتم مہتابؔ نہ جانو
شاید میں اس کا سایا ہوں
بشیر مہتاب ؔ
رام بن،موبائل نمبر 9596955023
وہ باتیں امن کی سب کر رہا تھا
جو دامن نفرتوں سے بھر رہا تھا
اُدھر دعوے خوشی کے ہو رہے تھے
اِدھر مفلس تڑپ کر مر رہا تھا
اکیلا تھا وہ اپنی جھونپڑی میں
گرجتے بادلوں سے ڈر رہا تھا
اشارا ہو رہا تھا پاس آؤں
ہلا ،وہ دور سے ہی سر ،رہا تھا
وہی یادوں کے خنجر چل رہے تھے
وہی کربل کا پھر منظر رہا تھا
تراشو گے کہاں تک تم بتوں کو
یہاں پر بھی کبھی آزر رہا تھا
یہ جھونکے ہجر کے ہیں جان لیوا
کبھی یہ شادؔ بھی مضطر رہا تھا
شاد ؔسجاد
آزاد کالونی پلوامہ کشمیر
گرد کے بادل میں کیا اور کچھ نہیں
قیس ہے جلوہ نما اور کچھ ہیں
دل فگاری چشم تری کا سبب
آپ کی ترکِ وفا اور کچھ نہیں
تشنگی میں گھر کو جائے کیا خیال
جام اوندھا ہے پڑا اور کچھ نہیں
تنگ دستی میں گزاری زندگی
نذر جُز حرفِ دُعا اور کچھ نہیں
اب تلک زندہ تھے بس اس زعم میں
درد ہوجائے دوا اور کچھ نہیں
ہائے رے اپنی غزل مرزا منیبؔ
شور و غوغا کے سوا اور کچھ نہیں
مرزا ارشاد منیبؔ
رابطہ؛بیروہ بڈ گام کشمیر ،
موبائل نمبر؛7889367519