جموں//” آئین ہندکے آٹھویں شیڈول میں شامل کرانے کی بات کرنے والی سیاسی قیادت گوجری کوتعلیمی نصاب میں شامل کرانے سے بھی قاصر اوراسے چُلوبھرپانی میں ڈوب مرناچاہیئے “محکمہ تعلیم کی جانب سے مورخہ 19 جون 2017 کوجاری ہوئے آرڈرنمبر 333 Edu of 2017 کے تحت تین علاقائی زبانوں بشمول کشمیری ، ڈوگری اوربودھی کو سکینڈری سطح پر(نویں ،دسویں) تعلیمی نصاب میںسرکاری وغیرسرکاری سکولوں میں متعارف کرایاگیاتھا لیکن گوجری،پہاڑی اورپنجابی کونظرانداز کیاجس کے خلاف سکھوں نے منظم تحریک چلاکرریاست بھرمیں احتجاجی مظاہرے کرنے کے ساتھ ریاستی حکومت کے ترجمان نعیم اخترسے بھی ملاقات کی جس کانتیجہ یہ نکلاکہ بدھوار کوسرینگرمیںسٹیٹ ہائیر ایجوکیشن کونسل کی چوتھی میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے سکولوں اور کالجوں میں کشمیری ، ڈوگری اور دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان متعارف کرنے کی بھی ہدایت دی لیکن پہاڑی اورگوجری زبان کوسکولوں اورکالجوں میں رائج کرنے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں لیا ۔درحقیقت 19 جون کوجاری ہوئے آرڈرنمبر333کے تحت گوجری اورپہاڑی کے ساتھ کی گئی ناانصافی پر گوجرطبقہ سے وابستہ کابینہ وزراءاور 8 ممبران اسمبلی اورپہاڑی طبقے کے لیڈران خاموش تماشائی بنے رہے البتہ راجوری پونچھ میں گوجر،پہاڑی طبقہ کے سماجی کارکنان نے کچھ میٹنگوں کاانعقاد ضرور کیاجس کے بعد گوجر،پہاڑی اورپنجابی متحدہ فرنٹ کاوجودعمل میں آیاتھا لیکن ریاست میں گوجری اورپہاڑی کے ساتھ ناانصافی کولے کرکوئی زوردارمظاہرے نہیں کئے گئے ۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے سکھوں کے ریاست بھرمیں ہمہ گیرمظاہروں کودیکھتے ہوئے پنجابی کوسکولوں اورکالجوں میں متعارف کرنے کی ہدایت دے دی ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پہاڑی اورگوجرلیڈران نیزوزراءزبانی جمع خرچی پریقین رکھتے ہیں جس کانتیجہ دونوں طبقوں کوکئی دہائیوں سے بھگتناپڑرہاہے اور عوام کسمپرسی کی حالت میں اپنے حقوق سے محروم ہے ۔ واضح رہے کہ اسمبلی وپارلیمانی انتخابات آتے ہی پہاڑی اورگوجرلیڈران ،قوم پرستی کاواسطہ دے کر لوگوں سے ووٹ بٹورکر ایم ایل اے بننے کےلئے استحصال کرتے ہیں لیکن بعدمیں وہ عملی طورپر گوجراورپہاڑی عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کوپوراکرنے کےلئے عملی طورپرکوئی کام نہیں کرتے ہیں جس کانتیجہ حال ہی میں گوجر ی اورپہاڑی زبان کونصاب میں شمولیت سے محروم رکھتے ہوئے وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے صرف کشمیری ،ڈوگری،بودھی کے بعد پنجابی کوبھی سکولوں اور کالجوں کے تعلیمی نصاب میں شامل کرلیاجوکہ گوجراورپہاڑی طبقوں کی سیاسی قیادت کےلئے حقوق سے محرومی کے واضح اسباب کی نشاندہی ہے ۔گوجرطبقہ کے ایک دانشورنے کہاکہ گوجربکروال طبقہ کی سیاسی قیادت جوکہ 2 کابینہ وزراءاورآدھادرجن کے قریب ممبران اسمبلی پرمشتمل ہے کو چُلوبھرپانی میںڈوب مرناچاہیئے کہ وہ گوجری کونصاب میں شامل نہیں کراسکے ۔انہوں نے کہاکہ جس قوم یاطبقے کی سیاسی قیادت گوجری زبان کوتعلیمی نصاب میں شامل نہ کرائی سکی وہ آئندہندکے آٹھویں شیڈول میں گوجری کوشامل کیسے کراسکتی ہے؟