وہ ایک شخص مجھے عالیشان لگتا ہے
خدا کی ذات میں جسکا دھیان لگتا ہے
عجیب وسوسے دل کو اُداس کرتے ہیں
’’جب اپنے ہاتھ میں سارا جہان لگتا ہے‘‘
بدن پہ زرد یوں نے اپنی چھاپ چھوڑی ہے
کئی دنوں سے یہ خالی مکان لگتا ہے
تعلقات کی ڈوری کو کاٹ نہ دینا
کہ تیرا قرب مجھے سائبان لگتا ہے
بدلتے جاتے ہیں اب زاویئے نگاہوں کے
مجھے فریبِ نظر آسمان لگتا ہے
نیا عذاب نیا دور دے رہا ہے ہمیں
غریق ِیاس یہاں ہر جوان لگتا ہے
بلایں کونسی ہیں تاک میں خدا جانے
حریفِ جان بہت مہربان لگتا ہے
یہ آب و گلِ کا تماشہ سراب ہے سارا
خیال ِزیست بھی وہم و گمان لگتا ہے
نبی ،فرشتے، کُتب ،آخرت کی سب باتیں
مرے خدا کا یہ گہرا پلان لگتا ہے
تمہارے شہر پہ اُفتاد کیا پڑی بسملؔ؟
یہاں کا فردِ بشر بے زبان لگتا ہے
خورشید بسملؔ
تھنہ منڈی راجوری
موبائل نمبر؛9086395995
کبھی ہنسا نہ سکا اور کبھی رُلا نہ سکا
بَھلا رہا یا بُرا وقت آزما نہ سکا
وہ جھیلتا ہی رہا مجھ کو درد کی صورت
میں ایک فرض سمجھ کر جسے نبھا نہ سکا
جو لوٹ آئے وہ رسماً نہ مڑ کے دیکھ سکے
مگر جو ڈوبا ہاتھ دیر تک ہِلا نہ سکا
بسی رہی مرے گھر میں کچھ ایسی تاریکی
تمام شہر میں کوئی دیے جلا نہ سکا
مجھے ہوا ہی نہیں فاصلوں کا اندازہ
کسی بھی سمت سے وہ بھی مگر بُلا نہ سکا
یہیں کہیں ہے مرے آس پاس ہی بلراجؔ
چلا گیا ہے وہ ایسے کہ دل سے جا نہ سکا
بلراج ؔبخشی
۱۳/۳، عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی
اُدہم پور- ۱۸۲۱۰۱(جموں کشمیر)
Mob: 09419339303
email: [email protected]
یہ شہرِ آرزو، یہاں پیدا ہوا ہوں میں
اِس کے طُفیل آج تک ٹھہرا ہوا ہوں میں
صُبحِ ازل مُجھے ملی ہے چشمِ حق شناس
شامِ ابد کا نبض شِناسا ہوا ہوں میں
تسلیم کیجئے مجھے ہوں رہنمائے وقت
دامن کسی کا ہاتھ میں تھاما ہوا ہوںمیں
اِک بوریا نشیں کی نگاہِ کرم کا فیض
اِک خاکسار اَرفع و اعلیٰ ہوا ہوں میں
غیروں سے مُجھے شکوہ شکایت نہیں کوئی
اپنوں کے دست ِمہر کا مارا ہوا ہوں میں
دل ہے میرا کہ عکسِ حسیں عرشِ بریں کا
قرب و جوارِ دہر میں پھیلا ہوا ہوں میں
اُن سے کِیا جو زندگی کا حُسنِ انتساب
سنسار کو ہاتھوں میں سمیٹا ہوا ہوں میں
کہتے ہیں مجھ کو آج بھی مشتاقِؔ سخت جاں
رنج و محن کی گود میں پالا ہوا ہوں میں
مشتاقؔ کاشمیری
سرینگر،موبائل نمبر؛9419011900
لوٹے گا پھر اِدھر ہی مجھے اعتبار کیا
جو جا چکا ہے اس کا بھلا انتظار کیا
دھندلا گئے تمام جو چہرے عزیز تھے
پھیلا ہے میرے گرد و نواح غبار کیا
تا عمر دردِ دل کا مداوا نہ ہو سکا
مر جائے نہ تو اور کرے غمگسار کیا
مجھ سے ہی پوچھتے ہیں میری جان کے عدو
ہوتا ہے محفلوں میں ابھی ذکرِ یار کیا
اب کے وہ میرے دل سے مکمل اُتر گیا
مجھ سے میری وفا کا صلہ بار بار کیا
جاویدؔ یہ ہجوم تو پہلے کبھی نہ تھا
انکی گلی میں بن گیا میرا مزار کیا
سردار جاوید خان
پتہ؛ مہنڈر، پونچھ
رابطہ؛ 9697440404
صدیوں کے شور میں مجھے کب آسماں ملے
بکھرے ہوئے وجود کو کیونکر جہاں ملے
ہم تو وفا کی آس میں یوں منتظر رہے
جیسے دہکتے دشت میں اِک سائباں ملے
نذرانہ اپنے شوق کا حاصل میں دے مجھے
احساس کے نگر میں پھر سودا کہاں ملے
یہ درد خامیوں کی اِک میراث ہی تو ہے
باقی ملے جو یاد کا، کوئی مکاں ملے
اکثر وہ میرے نام سےہی بدگماں رہا
مجھ کو تو اپنی ذات کا ہی سائباں ملے
سانسوں کی خاک میں کر گیا وہ دفن خواب میں
تعبیرِ جسم جل اُٹھے اور دھواں ملے
سنبھلے ہوئے ہیں خواب کے مِنبر پہ آرزو
یونس ؔ داغ دل کے ،جو پاسباں ملے
محمد یونس ؔڈار
ریسریچ اسکالرشعبۂ اُردو کشمیر یونیورسٹی
ای میل؛[email protected]
فون نمبر9797770422;