درد و غم کے سایے میں زیست کا مزہ پایا
پیکرِ محبت کا رنگ ہی جدا پایا
غم اگر نہیں کوئی پھر خوشی کا کیا معنی
ظلمتوں میں ہی اکثر نور کا مزہ پایا
ہم کو ضبط کرنے میں کچھ سکوں ملا لیکن
آپ نے ستم ڈھاکر کون سا مزہ پایا
عمر بھر کی ساری ہی آرزوئیں بر آئیں
دل نے جب وفاؤں کا کچھ نہیں صلہ پایا
جانے کیسا منظر تھا چشمِ ناز میں ان کی
عقل گمشدہ دیکھی دل لُٹا ہوا پایا
بات کا سلیقہ تو کوئی سیکھے غالب سے
ایک ایک مصرعے کو ہم نے بولتا پایا
شمسؔ ہم نے دیکھا ہے جان ہی پہ بنتی ہے
مرحلہ محبت کا صبر آزما پایا
ڈاکٹر شمس کمال انجمؔ
صدر شعبۂ عربی ، اردو، اسلامک اسٹڈیز، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری،9086180380
کٹھوعہ کی معصومہ کے نام
اے قوم کی مظلوم بچی ہم بہت ہیں شرمسار
تیری عصمت کو کیا ظالم نے کیسے تار تار
ہائے! تو نے زندگی کی دھوپ کو سینکا نہ تھا
صبح کی پہلی کرن کے حسن کو دیکھا نہ تھا
تو نے دیکھا ہی نہیں تھا چاند کے انوار کو
اس مہکتی شام کو اور وادیٔ کوہسار کو
ان ستاروں کی ضیا سے تو ابھی کھیلی نہ تھی
تو تعاقب میں ابھی تتلی کے بھی دوڑی نہ تھی
تو ابھی بھیگی نہ تھی ساون کی اس برسات میں
تو کبھی سوئی نہ تھی تنہا ٹھٹھرتی رات میں
تو وہ گل تھی جس کو دیکھا ہی نہیں تھا شاخ نے
کس طرح مسلا ہے تجھ کو ہائے اس گستاخ کو
صنفِ نازک تو ہے لیکن کیا تجھے معلوم تھا ؟
دل اگر تھا موم تیرا جسم بھی معصوم تھا
مرد اور عورت میں کیا ہے فرق کیا یہ تھی خبر؟
تو ہوس کی سب نگاہوں سے ابھی تھی بے خبر
میرا ہونا باعث صدمات ہے
دن کے ہو تے بھی اندھیری رات ہے
جستجو کس کی ہے اب اے دل میرے
حق پہ ہوں میں بس یہی اک بات ہے
قتل کیسے میں ہوا پوچھوں نہ تم
میری قسمت میں لکھی بس مات ہے
یہ تجابُل اُن کا ہے جانے دیا
ورنہ میری کیا یہاں اوقات ہے
حق کہا جس نے بھی ناحق مر گیا
تیری دنیا کی عجب سوغات ہے
سرخرو ہو کر چلے ملکِ عدم
ہاں شہیدوں کی یہی بارات ہے
پاکے کھونا کھو کے پانا سیکھ لے
دل جلوں کی یہ نرالی بات ہے
میں اکیلا ہوں کہاں طالبؔ یہاں
ایک میں ہوں ایک تیری ذات ہے
اعجاز طالبؔ
رابطہ حول جعفر بیگ ، سرینگر،9906688498
ہے عِشق محمدؐ میں کچھ اور اَثر یارو
کہتے ہیں مدینے کے مُرغانِ سحر یارو
احمدؐ ہے میرا مُحِسن، قُرآن میرا رہبر
اس راہ کے کانٹے بھی ہیں لعلُ وگہر یارو
لمحات کی دُنیا میں عشرت نہیں زیبا ہے
یہ سوچ کے کرتا ہوں دن رات بسر یارو
ہوکیسے فرشتوں کی آمد یہ میرے گھر میں
اِبلیس میرے گھر میں ہے شام و سحر یارو
یہ تو ہے کرم رب کا دستور سے بالاتر
واجب ہے مجھے ورنہ اللہ کا قہر یارو
میں راہِ حقیقت کا اِک ایسا مسافرؔ ہوں
رہتی ہے جسے ہر دم منزل پہ نظر یارو
وحید مسافرؔ
باغات کنی پورہ، چاڈورہ
موبائل نمبر؛9419064259
مبادا پھر مجھے تُو یاد آئے
تھے جتنے زخم میرے دِل نے کھائے
جگر میرا نہ اس قابل کبھی تھا
بتا کیوں تیر تونے آزمائے
فقیروں کے لئے دُنیا ہے فانی
گھروندوں سے ہمیشہ گھر بنائے
وہی اب عاشقی سے بھاگتا ہے
سبق جس نےوفائوں کے پڑھائے
نمک چھڑکا بڑے نازوادا سے
جسے یہ داغ سینے کے دکھائے
حقیقت کا نہ پیکر بن سکے تم
بتا پھر کس لئے خوابوں میں آئے
سرِ راہ سر پھروں کی ٹولیاں ہیں
تعلق کِس لئے ہادیؔ بڑھائے
حیدر علی ہادیؔ
سید کالونی گلاب باغ
موبائل نمبر؛9797554452
شربت دید اک دن پلا دیجئے
داغ فرقت کا اپنی مٹا دیجئے
تجھکو تیرے تبسم کی ادنیٰ قسم
خانۂ دل مرا جگمگا دیجئے
غم کی کالی گھٹا خود ہی مٹ جائے گی
پاس آکر ذرا مسکرا دیجئے
ہجر کا زخم ہے اے مرے دلربا
دست نازک سے مرہم لگا دیجئے
خواب ہی میں سہی ہم چلے آئیں گے
اپنی منزل کا ہم کو پتہ دیجئے
اپنی آنکھوں کے پیمانے میں بھر کے اب
ہاں شرابِ محبت پلا دیجئے
جاں بلب تیرا اظفرؔ ہے اے جانِ من
اپنے دامن کی اس کو ہوا دیجئے
اظفر کاشف پوکھریروی
سرینگر،بی ایڈ کالیج بڈگام
موبائل نمبر؛9149833563