اسے بھی آزمانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
مجھے بھی دھوکہ کھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
ہواؤں کو منانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
چراغوں کو بجھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
سنو آنسو بہانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
شراروں کو بجھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
بدل جاتے ہیں یہ موسم بکھر جاتے ہیں یہ گلشن
صبا کو سر اُٹھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
مٹائے گا مگر کیسے محبت آدمی دل سے
پرانے خط جلانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
اشاروں پر نچاتی ہے سیاست آندھیوں کو بھی
ہواؤں کو سِکھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
بڑی مشکل سے جُڑ جاتا ہے من کا آئینہ عادل ؔ
کسی کا من دُکھانے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9906540315
بخت جب ہو اوج پر اپنا بتادیتے ہیں سب
وقت پڑجائے تو پھرپیٹھ دکھادیتے ہیں سب
جیتے جی چین سے جینے نہیں دیتے اک پل
مرنے والے ہوں تو جینے کی دعادیتے ہیں سب
اب بڑے دل کے مرے شہر میں انساں کہاں
چھوٹی سی بات بڑی بات بنادیتے ہیں سب
سالِ نو آتا ہے جاتا ہے کہانی بنکر
وقت کی قبر میں یادوں کو سُلا دیتے ہیں سب
مفسدوں نے تو مرے دیس کو رسوا ہی کیا
اسکے ماتھے پہ نیا داغ لگا دیتے ہیں سب
درسِ احمد (ص)پہ عمل پیراہے کوئی کوئی
اسمِ احمد(ص) پہ مگر خون بہا دیتے ہیں سب
اس عقیدت کو اگراندھی عقیدت کہہ دیں
فتویٰؑ کفر اسی آن لگادیتے ہیں سب
لفظ احباب کتابوں سے ہٹادو بسملؔ
یہ تو ناکردہ گناہوں کی سزا دیتے ہیں سب
خورشید بسملؔ
تھنہ منڈی، راجوری،موبائل نمبر؛9622045323
کسی دن سبھی کو رُلا جاؤں گا
اگر موت آئی چلا جاؤں گا
لگایا ہے تجھ کو گلے سے بہت
گلے موت کو بھی لگا جاؤں گا
ستم ہم پہ کرتے رہیں وہ سدا
مگر ان سے کرتے وفا جاؤں گا
نہ بھولے گا جس کو کبھی یہ جہاں
وہ طورِ محبّت سِکھا جاؤں گا
نئی عمر ہے یہ، نیا عشق ہے
میں ہر دن غزل اک سُنا جاؤں گا
ذرا پاس بسملؔ کے بیٹھو بھی تم
سبب کیا ہے غم کا بتا جاؤں گا
پریم ناتھ بسملؔ
مہوا،ویشالی،رابطہ۔8340505230
زمین و آسماں کا کیا کروں گا
تمہارے بِن جہاں کا کیا کروں گا
ذرا سی زندگی نے بھی کیا تنگ
حیاتِ جاوداں کا کیا کروں گا
نہ ہو جس میں تمہارا ذکر جاناں
میں ایسی داستاں کا کیا کروں گا
میرے جینے کو ہے اک گھر ہی کافی
جہانِ بے کراں کا کیا کروں گا
خدا کی راہ میں قرباں نہ ہو جو
بتا میں ایسی جاں کا کیا کروں گا
فہیم اقبال
ہلڑشاہ آباد،ڈورو اننت ناگ
آج غم ہے تیری جدائی کا
ڈر ہےکیسا یہ بے وفائی کا
تیرا دامن ہی چھوٹ نا جائے
خوف کیسا ہے پیش پائی کا
بولتا ہے یہ نشّہ سرچڑھ کر
پیٹ ڈھنڈورا کج ادائی کا
اب اکیلا ہوں، پر کہاں جائوں
ساتھ ٹھہرا جو بے وفائی کا
تنہا ؔیاور
طالب علم، فرصل کولگام
موبائل نمبر؛8491071053
خوف و دہشت ہے گُل و گلزار پر
اہلِ گلشن ہیں کسی آزار پر
آج کی تصویر بھر کر فریم میں
ٹانگ دیں گے کل کسی دیوار پر
پھر کوئی آواز ابھری ہے کہیں
پھر کوئی سر سج گیا ہے دار پر
نقش کرتے ہیں بیاں سب داستاں
پاؤں رکھا ہے کسی نے خار پر
خواہشیں سب دفن کرنی ہیں کہیں
جو لگی تعزیر ہے اظہار پر
اک ذرا سی بات فتنہ بن گئی
ختم قصہ ہوگیا تلوار پر
بات لب پر سوچ کر لے آئیے
حرف آئے نہ کہیں گفتار پر
آخرش وہ وقت بھی آہی گیا
بات آکر رُک گئی دستار پر
سازشیں سورج کی ہیں گوندھی ہوئی
تہمتیں منظورؔ ہیں اشجار پر
ڈاکٹر احمد منظور
بارہمولہ،موبائل نمبر؛ 9622677725
اُس نے جب مجُھ سے کجَ ادائی کی
دوستوں نے لگی بُجھائی کی
موت سے تو مجھے گلہ تھا ہی
زندگی نے بھی بے وفائی کی
وقفے وقفے ضمیر پر میرے
ساری دنیا نے بادشاہی کی
وہ تھے مہمان اور اندھیرا تھا
دل جلایا تو روشنائی کی
میں نے پوچھا تھا روشنی کا پتہ
اُس نے خلوت کو رہ نمائی کی
وقت کے اِس فرعون نے تابشؔ
سارے عالم میں بے حیائی کی
جعفر تابشؔ
مُغلمیدان، کشتواڑ
رابطہ؛ 8492956626
ایک دوجے کی کمی میں تُو بھی ہے اور میں بھی ہوں
مبتلاء اس بے بسی میں تُوبھی ہے اور میں بھی ہوں
یاد کے منظر میں پورے چاند کی ایک رات ہے
ملگجی سی چاندنی میں تُو بھی ہے اور میں بھی ہوں
آج تک ہم ڈھونڈتے پھرتے ہیں موسم وصل کے
آج تک آوارگی میں تُو بھی ہے اور میں بھی ہوں
زندگی بھر کی جدائی کی سزا کے باوجود
تری میری زندگی میں تُو بھی ہے اور میں بھی ہوں
جو محبت کے حسیں جذبات سے لبریز ہو
جانِ من اُس شاعری میں تو بھی ہے اور میں بھی ہوں
کے ڈی مینی
پونچھ، جموںوکشمیر، موبائل نمبر؛8493881999
اپنی خوبی کو کبھی خاطر میں بھی لاتا نہیں
دوسروں کی خامیاں بھی وہ کبھی گنتا نہیں
خونِ دل درکار ہوتا ہے بشر اس کے لئے
زہر پانی میں ملانے سے کنول رکھتا نہیں
بِک گیا جب، سرمرا بھی شرم سے جھک ہی گیا
بار ہا میں نے لکھا تھا آدمی بِکتا نہیں
رُک گیا وہ کر گیا جو دوریوں کا ہے حساب
جس نے لمحوں کو گِنا ہو، وہ کبھی رُکتا نہیں
وقت کے شاہوں نے مارا جس طرح سے ہے مجھے
ڈر کسی قاتل سے مجھ کو اب کبھی لگتا نہیں
اپنی دنیا کو مٹا کر وہ ملا خاورؔ مجھے
مخملی چادر پہ سونے سے خدا ملتا نہیں
نذیر خاورؔ
زاکر نگر، نئی دہلی
موبائل نمبر؛09911733774
پتھروں کی زد میں آیئنے ملے
آئینوں میں اپنے ہی چہرے ملے
تُم جو بدلے سب بدلتے ہی گئے
کیسے کیسے کانچ کے رشتے ملے
اب کے موسم بھی عجب جلدی میں تھے
ہم کو کچھ سوکھے ہوئے پتّے ملے
بے سہارا ڈوبنے والا نہ تھا
اس کی مٹھی میں کئی تِنکے ملے
اَن کہی باتوں نے رکھا ہے بھرم
واپسی کے کچھ یہی رستے ملے
خود کو سعیدؔ میں کہاں تک روکتا
رنگ اپنے ہر طرف بکھرے ملے
سعید احمد سعیدؔ
احمدنگر سرینگر،8082405102
ہم مقدر آزما کر دیکھ لیں گے
درد کو درماں بنا کر دیکھ لیں گے
گھر لُٹا کے وہ پسیجے تو نہیں
اب کے ہستی کو مٹا کر دیکھ لیںگے
لوٹے ہیں در سے تیرے خالی یہاں
اب کسے ہم آزما کر دیکھ لیں گے
کوئی تو ہوچارہ گر، جسکو کہ ہم
داستانِ غم سُنا کر دیکھ لیں گے
غیر ممکن ہے کہ ہو وعدہ وفا
پھر بھی اُنکے پاس جاکر دیکھ لیں گے
خاطرِ ناموسِ عشق یار ہو
زخم کھا کر مسکرا کر دیکھ لیںگے
پارسا جو بن کے بیٹھے ہیں منیبؔ
اُنکو آئینہ دکھا کر دیکھ لیں گے
مرزا ارشاد منیبؔ
بیروہ بڈگام،
موبائل نمبر؛9906486481