کبھی اپنے کبھی اغیار نظر آتے ہیں
سائے بھی کتنے پُراسرار نظر آتے ہیں
اب نئے شہر کا نقشہ نہ بنایا ہو کہیں
پھر اُجڑتے ہوئے گھر بار نظر آتے ہیں
جان لیتے رہے دیتے بھی رہے جن کے لئے
آج وہ مسئلے بے کار نظر آتے ہیں
معجزہ یہ بھی سیاست کا کوئی کم تو نہیں
دو نہیں ہوتے مگر چار نظر آتے ہیں
جس نے جو چاہا وہی چھین لیا ہے ہم سے
اب تو کوئی لُٹا بازار نظر آتے ہیں
وقت نے چہرے پہ وہ کاریگری کی بلراجؔ
آج ہم بھی کوئی شہکار نظر آتے ہیں
بلراج بخشی
۱۳/۳، عید گاہ روڈ ، آدرش کالونی،
اُدہم پور- ۱۸۲۱۰۱(جموں کشمیر)
موبائل نمبر؛09419339303
سر پھرا میں سر فدا کرتا رہا
زندگی کے شوق میں مرتا رہا
زخم کھا کر درد اک سہتا رہا
اشکِ غم ہر روز میں پیتا رہا
مر گیا ہوں تشنگی میں کیا کہوں
سامنے دریا مگر بہتا رہا
عشق کی یہ آگ بُجھتی ہی نہیں
عمر بھر اس آگ میں جلتا رہا
میرے رونے پر کبھی ہنستا تھا جو
بعد میرے وہ بہت روتا رہا
جھوٹ کا ہے دور یہ، اس دور میں
وہ گیا مارا جو حق کہتا رہا
دل پہ جو شادابؔ گزری عشق میں
رات دن قرطاس پر لکھتا رہا
محمد شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
رابطہ؛9797103435
چارہ گروں نے گھر کو سنورنے نہیں دیا
جس سمت راستہ تھا گزرنے نہیں دیا
چاندی کے گھر ملے ہیں جو رہنے کے واسطے
دل میں کسی نے اپنے پھر رہنے نہیں دیا
کیا کچھ نہیں دیا ہے زمانے نے ہم کوآج
بس چاکِ جگر ہے کہ وہ سینے نہیں دیا
وہ لمبی عمر کے لئے دے کر دعاء گیا
اک پل بھی مگر چین سے جینے نہیں دیا
مرنے کے بعد کردیا میخانہ میرے نام
پیاسا رہا میں عمر بھر پینے نہیں دیا
پتھر سے دوستوںنے دیئے زخم ہیں سعیدؔ
قاتل کی عنایت ہے کہ جینے نہیں دیا
سعید احمد سید
احمد نگر سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛8082405102
میں اپنے عشق کا فرصت سے اک عنوان لکھ دوں گا
تجھے اے دل بلا تاخیر کے نادان لکھ دوں گا
کوئی پوچھے کبھی اس دارِ فانی کا اگر مجھ سے
سوائے عشق کے میں دہر کو ویران لکھ دوں گا
تری وہ لن ترانی تم کو مجھ سے دور نہ کر دے
تجھے اس فعل کے بدلے میں بے ایمان لکھ دوں گا
تفکّر اور تجّسس عینِ انسانی شجاعت ہیں
کتابِ دل میں یہ باتیں علی اعلان لکھ دوں گا
نہ میں نے میرؔ کی دنیا کو دیکھا ہے نہ غالبؔ کی
مگر ظالم تری خاطر میں اک دیوان لکھ دوں گا
یہ اصرارِ شہنشاہی وراثت ہے محبت کی
بھرم رکھتا ہوں ورثے کا میں یہ فرمان لکھ دوں گا
ذلیخا! مصر کا بازار ہے اور ناہی یوسف اب
میں اپنے شہر کو چپکے سے ہی کنعان لکھ دوں گا
کھبی الیاسؔ بھولے سے وہ آئے شہر میں تیرے
میں بس انجان بن کے انکو اک مہمان لکھ دوں گا
محمد الیاسؔ کرگلی
ریسرج اسکالر، دہلی یونی ورسٹی
موبائیل نمبر؛6005412339
تعلق توڑ کے جاتے ،تو کوئی بات تھی جاناں
مکمل چھوڑ کے جاتے ،تو کوئی بات تھی جاناں
مری آنکھوں پہ زلفوں کی یہ چادر ڈال کے رکھ دی
اِسے تم اُوڑھ کے جاتے، تو کوئی بات تھی جاناں
تغافل ہے نگاہوں کا، بھلا شکوے سے کیا ہوگا
اُنہیں گر پھوڑ کے جاتے، تو کوئی بات تھی جاناں
بُلایا اُس نے چاہت میں، بھلا الزام ہے کیسا
اگر تم دوڑ کے جاتے ، تو کوئی بات تھی جاناں
ستمگر سر اُٹھائے بڑھ رہے ہیں میری جانب اب
رُخ انکا موڑ کے جاتے،تو کوئی بات تھی جاناں
پلاکے جامِ ہستی رکھ دیا کس حال میں مجھ کو
اسے تم توڑ کے جاتے تو کوئی بات تھی جاناں
وفا معصوم ہے فرمانؔ اور وہ سنگدل ٹھہرا
انہیں تم جوڑ کے جاتے، تو کوئی بات تھی جاناں
معصوم فرمان مرچال
طالب علم :بارویں جماعت
ساکنہ۔ زینہ گیر سوپور
موبائل نمبر؛6005809201
یہ حقیقت ہے تیرے پاس رہتا ہوں
میں ہمیشہ مگر اداس رہتا ہوں
تیز آندھی میں اُڑ کے آوئوگے
لے کے دل میں یہ آس، رہتا ہوں
درد کو دوں شکست،زہر کو چکھ لوں
ان لبوں پہ سجائے پیاس، رہتا ہوں
ظلم ہونا کسی پہ، سینے میں
دفن کرکے میں سانس رہتا ہوں
حور بھٹکے نہ کوئی میرے پاس
اس لئے بے لباس رہتا ہوں
ہے حقیقت کہ عام ہوں جمشیدؔ
درمیانِ خواص رہتا ہوں
جمشید احمد میاں
سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر