نہ دل نہ جسم مرے رابطے میں کوئی نہیں
غبارِ رہ کے سوا راستے میں کوئی نہیں
ابھی تو چاند کی بولے گی خود پرستی اور
شبِ انا کے سوا فائدے میں کوئی نہیں
سفر سفر میں رہی ساتھ آبلہ پائی
جنونِ دل کے سوا قافلے میں کوئی نہیں
اُڑان بھر بھی گئے وہ سبھی پرندے اب
اُجاڑ رُت کے سوا گھونسلے میں کوئی نہیں
فضا نے پھول کے رخ پر چھڑک سی دی شبنم
ہوا نہ رُت نہ صباء قائدے میں کوئی نہیں
زبانِ زیست پہ جیسے مٹھاس بکھری ہے
مذاقِ دل کے سوا ذائقے میں کوئی نہیں
ہماری آنکھ کو بھایا نہیں کوئی عادل ؔ
نگاہِ یار کے بھی زاویئے میں کوئی نہیں
اشرف عادلؔؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛ 9906540315
عاشقی گُل نیا کھلائے گی
درد پھر سے مرا بڑھائے گی
ضد مری آسما ن چھو نے کی
حوصلہ بھی مرا بڑھا ئے گی
وہ اک اُمید نام کی لڑکی
دل مرا توڑ کے ہی جا ئے گی
جیتتے رہنے کی عادت تھی جسے
مفلسی اب اُسے ہرائے گی
دھوپ میں جل رہا ہو ں مدت سے
کب دسمبر کی را ت آئے گی
رابطے سارے منقطع کر کے
پھر نیا رابطہ بنائے گی
کوئی سوراخ بھی نہیں عارفؔ
پھر بھی کشتی یہ ڈوب جا ئے گی
عرفان عا رف ؔ
اسسٹنٹ پروفیسر اردو ، پونچھ
موبائل نمبر؛9858225560
میں اپنی شاعری میں وقت کی پہچان رکھتا ہوں
مگر اپنے سرہانے میرؔ کا دیوان رکھتا ہوں
کہیں خالی نہ ہوجائے جزیرہ میری آنکھوں کا
میں اپنے آنسوؤں کو آج کل مہمان رکھتا ہوں
ملا ہے خاکساری کا ہنر مجھ کو وراثت میں
بزرگوں کی روایت پر ہمیشہ دھیان رکھتا ہوں
اگر مہمان آتے ہیں تو برکت گھر میں آتی ہے
کشادہ اس لئے میں اپنا دسترخوان رکھتا ہوں
ملے گا آپ کو ترسیل کا زینہ بہر صورت
فصیلِِ لفظ میں اکثر درِ امکان رکھتا ہوں
کبھی ہو دھوپ تو چھاؤں کبھی ہوتی رہے اس میں
کشادہ اس لئے میں ذہن کا دالان رکھتا ہوں
سعیدؔ آتی نہیں گردان مجھ کو فاعلاتن کی
نہ میں اپنی غزل کے واسطے میزان رکھتا ہوں
سعید رحمانی
مدیراعلیٰ ادبی محاذ۔
دیوان بازار۔کٹک۔753001(اڑیسہ)
یہ بھی دیکھو کبھی ہے مجھے کتنا غم
تم تو بس دیکھتے رہتے ہو اپنا غم
پھر تو جینے میں آجائے یارو مزہ
بانٹ لیں ہم جو اپنے پرائے کا غم
یہ بہاتا ہے کیوں اس قدر شبنمِ اشک
آسمانوں کو بھلا رہتا ہے کس کا غم
ہم گلے سے لگاتے نہ اس کو اگر
پھر کہاں جاتا سوچو یہ بیچارا غم
میری خوشیاں تری، تیری خوشیاں مری
میرا غم تیرا، غم تیرا غم میرا غم
میری قسمت کا یہ ظلم تو دیکھئے
جتنی چھوٹی خوشی اتنا ہی لمبا غم
تم کو چل جائے جو میرے دُکھ کا پتہ
بھول جائے خدا کی قسم اپنا غم
ذکی طارق
سعادت گنج ، بارہ بنکی
رابطہ ؛ 7007368108
میرا جو کچھ تھا حقیقی وہ گماں ہونے لگا
زندگی کا فلسفہ کھل کر عیاں ہونے لگا
میں نے دنیا سے چھپائے تھے یہ غم سارے مگر
میرا دکھ میرے ہی چہرے سے بیاں ہونے لگا
سچ تو یہ ہے زندگی سے اب میری بنتی نہیں
لمحہ لمحہ اب میرا بارِ گراں ہونے لگا
فاصلے ہی فاصلے ہر سُو یہاں بڑھنے لگے
جب سے ہر اِک دوسرے سے بد گماں ہونے لگا
میری ساری کوششیں ناکام آخر ہو گئیں
رنجشوں کا سلسلہ تو بیکراں ہونے لگا!
جب سرِ رہ چھوڑ کر وہ کج ادا، منہ پھر گیا
خونِ دل آنکھوں سے میری پھر رواں ہونے لگا
بٹ گئی حصوں میں جیسے زندگی میری عقیل ؔ
با خدا اب تو سراسر امتحان ہونے لگا
عقیل فاروقؔ
متعلم، شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
موبائل نمبر؛7006542670
میرے عکس کو تم مٹاوؤگے کیسے
تجھی میں تو ضم ہوں نکالو گے کیسے
وہ بچپن کی یادیں، وہ معصوم گھڑیاں
ہیں خط جو پرانے جلاوؤ گے کیسے
اتنی بھی کچی نہیں دوستی یہ
ہیں دشمن مرے، لو لگائو گے کیسے
وفاء زندگی میں کبھی تم نے کی ہے؟
میت میری دیکھ پاوؤ گے کیسے
مٹاکر محبت میں غیروں کی خود کو
خدا کو تو شاہینؔ پائو گے کیسے
شاہینہ ؔیوسف
ریسیرچ اسکالر شعبہ اردو سینٹرل یونیورسٹی
ہم کو ہاں نے مار ڈالا
جانِ جاں نے مار ڈالا
کس ستم کو دوش دوں میں
اک جہاں نے مار ڈالا
ہے حقیقت چار سُو جو
اُس گماں نے مار ڈالا
کفر ہے دل کا گنہ بھی
نکتہ داں نے مار ڈالا
کیا حسابِ دل بھی ہوگا
محتسب نے مار ڈالا
شہزادہ فیصل منظور خان
طالبِ علم
موبائل نمبر؛ 8492838989