غمِ دوراں میں خوشیوں کا خزانہ خواب لگتا ہے
ہمارے شہر میں اب مُسکرانا خواب لگتا ہے
وراثت پر مری قابض ہُوا کچھ اس طرح غاصب
کہ اپنی ہی زمیں پر گھر بنانا خواب لگتا ہے
جہاں پر چہچہاہٹ کو پرندے بھی ترستے ہوں
وہاں پر امن کا پرچم اُٹھانا خواب لگتا ہے
گیا جو دے کے تنہائی کے تحفے مُدتوں پہلے
میری آنکھوں کو اُس کا لوٹ آنا خواب لگتا ہے
اُسے تو کج ادائی کی رَوشِ کچھ اتنی راس آئی
مری راہوں میں اب پلکیں بچھانا خواب لگتا ہے
برسنے لگ گئے ہیں سنگ سب کے پھُول چہروں سے
ہمیں اس شہر میں سر کو بچانا خواب لگتا ہے
جہاں مسموم آندھی تاک میں شب بھر رہے مانوسؔ
وہاں اکثر چِراغوں کو جلانا خواب لگتا ہے
پرویز مانوسؔ
نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142
غزل
غزل
یہی بہتر سمجھتے ہیں کہ ان سے دور ہو جائیں
نظر آئیں نہ ان کو یوں کہیں مستور ہو جائیں
دلِ نازک پہ تلخ الفاظ نشتر سے چبھے صاحب
تعجب کس لئے ہو زخم گرناسور ہو جائیں
چلو الزام ان کے کچھ تو اپنے کام آئیں گے
وگر نہ خاصیت کیا ہے کہ ہم مشہور ہوجائیں
نہیں ہم کو محبت کا سلیقہ مانتے ہیں ہم
مگر ان میں بھی ہے کیا بات جو مغرورہو جائیں
ہمیں کھو کر وہ عارضؔ خوش بہت ہے ، یہ سنا ہم نے
تو ان کا غم بسا کر دل میں ، کیوں رنجور ہو جائیں
عارض ؔارشاد
نوہٹہ سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛7006003386
غزل
یہ کیسی دُنیا داری ہے
ہر شخص یہاں بیوپاری ہے
ہر کوئی ہے مصروف یہاں
اب مطلب کی سب یاری ہے
اب بکتا ہے بازاروں میں
بس جھوٹ،ریا، مکّاری ہے
سستا آج ہوا ہے خون
جو مہنگی ہے ترکاری ہے
ہر کوئی پھنسا ہے مشکل میں
لو اب کے منی ؔ کی باری ہے
ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
جموں و کشمیر،
غزل
غزل
اک شکن سی دراڑ میں گُم ہے
زندگی بھیڑبھاڑ میں گُم ہے
جھیل میں عکس عکس ہے پتھر
آئینہ کس پہاڑ میں گم ہے
ہجر کے چاند کا اُچھل جانا
چاندنی چھیڑ چھاڑ میں گم ہے
فکر کے آشیاں میں چین کہاں
من پرندہ اُجاڑ میں گم ہے
یُوں تو وہ بیج بونے آیا ہے
ہاتھ اُس کا اُکھاڑ میں گم ہے
اس ترقی سے امن ہے گھائل
یہ صدی تو پِچھاڑ میں گم ہے
گُلستاں میں خزاں کا ہے موسم
بوٹا بوٹا لَتاڑ میں گم ہے
آدمی لاپتہ ہے اب عادل ؔ
جانور چیر پھاڑ میں گم ہے
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر
رابطہ؛ 9906540315
عزتِ نفس
افسانچہ
فہیم ادیب فاروقی
سردیوں کے دن تھے ــ موسم صاف تھا ـــ شام کے تقریباً پانچ بجنے کو تھے ـــ تیز ہوا کھجور کے درختوں کو چھو کر گزر رہی تھی۔ ـــ سورج نے ڈوبنے کی تیاری میں آسمان کو سرخی مائل کر رکھا تھاــ۔ سمندر کی تیز لہریں اور ساحلِ سمندر کا نظارہ قابل دید تھا۔ ــ یہاں فرصت کے اوقات میں چہل قدمی کرنا میری ایک عادت سی بن گئی تھی۔ـ
حسبِ معمول چہل قدمی کرتے ہوئے خیالات میں محو تھا کہ اچانک مجھے میری پہچان کی آواز سنائی دی ـــ۔ میں نے نظریں گمہا کر دیکھا تو گریجویشن کے دوست عروج صاحب فون پر بات کررہے تھے ــ۔ـ
سلام دعا کے بعد ہم ٹہلتے ٹہلتے آگے بڑھے ہی تھے کہ عروج اقبال نے راستے میں رک کر ایک غریب اپاہج پھیری والے سے پوچھا….
"بھائی صاحب یہ سرخ دل نما غبارہ کتنے کا ہے….؟"
" صاحب جی صرف دو روپے کاـــ "
"اچھا تو پچاس غبارے دے دوــــ "
" جی صاحب ابھی دیاــــ "
وہ خوشی خوشی غباروں میں ہوا بھر نے لگا۔ ــــمحوِ حیرت مَیں عروج صاحب کو دیکھتا رہا کہ آخر اتنے سارے غبارے کیونکر خرید رہے ہیں؟ اس سے پہلے کہ مَیں لینے سے منع کرتا وہ لینے کا ارادہ کر چکے تھے اور میں دیکھتا ہی رہ گیاــــ۔
آخر میں نے سوال پوچھ ہی لیا ــــ
" کیا کرونگے ان تمام غباروں کا؟"
"کچھ نہیں "
مختصر جواب نے میرے اگلے سوال کو جنم دیاـــ
" پھر کیوں خریدے….؟ "
" بس ایسے ہی…..مدد کرنا تھا اس بیچارے کی…..!"
" مدد……؟ کیسی مدد…..؟ "
"اگر آپ اُسے مفت میں کچھ دے دیتے تو وہ مدد ہوتی! یہ کیسی مدد ہے…؟"
" بھائی ادیب تم نہیں سمجھوگے……وہ اپاہج معذور ہوکر بھی بھیک نہیں مانگ رہا۔ بس خودداری سے عزت نفس کے تئیں کما رہا ہے۔ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو اپنی خودداری اور اصولوں کا سودا نہیں کرتے ، ورنہ ہمارا سماج ان گنت ضمیر کے سوداگروں سے بھرا پڑا ہے ـــ اسی لئے مَیں نے اس کے اس عمل اور جذبہ کو تقویت دی ــــ بس یہی میری مدد ہوئی ـــ "
جواب سن کر مَیں حسّاس کھڑا ہی تھا کہ عروج اقبال نے اطراف و اکناف موجود نھنّے منّے بچوں کو اپنی طرف بلایا اور تمام غبارے ہاتھ میں لے کر آسمان کی طرف اڑا دیے ــــ۔ سب کی نظریں آسمان کی طرف تھیں جبکہ مَیں …..دیر تلک پھیری والے کی مسکراہٹ، بچوں کی خوشی، عروج صاحب کی ہمدردی اور دل نما غباروں کی اُڑان دیکھتا رہا ـــــ۔
���
اجنٹہ، اورنگ آباد ( مہاراشٹر)
موبائل نمبر؛9960788301
تمناسفرِ حِجاز کی
قسمت اگر میں پاؤں بطحٰی کو میں بھی جاؤں
طیبہ کی خاکِ اقدس آنکھوں سے میں لگاؤں
بطحٰی کی گھاٹیوں سے طیبہ کی وادیوں تک
ہر رہگذر کو اپنی پلکوں پہ میں سجاؤں
بطحٰی کی دُھول پر میں سب کچھ نثار کردوں
طیبہ کے ذرے ذرے پر اپنی جاں لُٹاؤں
گذروں میں جب وہاں سے، گذرے نبیؐ جہاں سے
آنکھوں سے لاکھوں موتی رخسار پر گراؤں
اشکوں سے میں نہاؤں، بے چین ہوتا جاؤں
ماضی کے سارے پردے آنکھوں سے جب ہٹاؤں
بیتاب دل کو کیسے قابو میں رکھ سکوں گا
کعبے کے سامنے جب پہلی دفعہ میں آؤں
مروہ ہو یا صفا ہو، عرفات یا مِنٰی ہو
تکبیر کی صدا سے دشت و جبل ہلاؤں
رگ رگ کو تر میں کردوں زم زم کا پانی پی کر
برسوں کی پیاس کو میں لمحوں میں یوں بُجھاؤں
روضۂ نبیؐ پہ جاکے گر کچھ میں لےکے جاؤں
زخمِ جگر کا تحفہ محبوب ؐ کو دِکھاؤں
روضے کی جالیوں کو رو رو کے تھام لوں گا
اُمت کا حال اپنے آقاؐ کو میں سُناؤں
کھوجاؤں اس قدر میں آقاؐ کی یاد میں جب
روضے کو دیکھ کر پھر کیسے نظر ہٹاؤں
کیسے کروں گوارا طیبہ سے میں جُدائی
وقتِ فراق ڈر ہے بےہوش ہو نہ جاؤں
کتنی خوشی حجازی ؔ آتی تجھے میسر
ارضِ حجاز کو ہی مسکن اگر بناؤں
وسیم حجازی ؔ
اگلر پٹن، بارہمولہ کشمیر
موبائل نمبر؛9797068044
مہنگائی
اُف ! یہ منہگائی ہمارا بیش بھی کم ہو گیا
خُوشِیوں کا موسم بھی اب تو غم کا موسم ہو گیا
آرزو حسرت تمنّا جاں بَلب سی ہو گئی
ہر خیال ہر خواب اب معدُوم و مُبہم ہو گیا
پھِر گیا پانی اُمید و حوصلہ و عزم پر
سامنے منہگائی کے کافُور دَم خَم ہو گیا
آس پر پڑنے لگی ہے اُوس چاروں اور سے
ہر ورق اب تو کِتابِ زیست کا نَم ہو گیا
بڑھتی قیمت پیٹرول، ڈِیزل، رسوئی گَیس کی
جِس طرف بھی دیکھئے ہا ہُو کا عالم ہو گیا
لڑکھڑاتے رہتے تھے پہلے ہی راہِ زیست میں
بھاری تھا جو بوجھ پہلے بھاری بھرکم ہو گیا
نا مُناسب نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے اُف !
زخم گہرے ہو گئے اور مہنگا مرہم ہو گیا
کر دی ایسی تَیسی اچّھے اچّھوں کی منہگائی نے
کل جو ڈیگا ڈیگا تھا وہ آج ڈَم ڈَم ہو گیا
جو زبر تھے زیر منہگائی نے اُن کو کر دِیا
چاروں خانہ گاما چِت مُنہ اوندھے رُستم ہو گیا
بات ہنسنے کی نہیں یہ غور فرمانے کی ہے
ایک پیالہ دُودھ کا کیوں ساغرِ جَم ہو گیا
آ گئے اب ہاتھ منہگائی کے گردن تک نیازؔ
کوشِشوں میں جِینے کی ہر شخص بے دَم ہو گیا
نیاز جَیراجپُوری
۶۷؍ جالندھری،اعظم گڑھ۔ اتر پردیش
موبائل نمبر؛09935751213
غزلیات
ہمیں رہبروں نے کِیا در بدر ہے
تبھی کوئی منزل نہ آتی نظر ہے
نہ جانے کہاں کھو گئے ہم ہی دونوں
نہ اپنی خبر ہے نہ اُن کی خبر ہے
عبادت میں شاید کمی ہوگی کوئی
تبھی تو دُعا کا نہ ہوتا اثر ہے
کیا وقت نے جب سے ویران گھر یہ
تبھی سے نہ کوئی بھی آتا اِدھر ہے
چڑھا رنگ جب سے سیاست کا سب پر
تبھی سے ہی بے رنگ سارا نگر ہے
سمیٹا جسے تھا بڑی کوششوں سے
وہی اب شیرازہ گیا سب بِکھرہے
تبھی سے خلائوں میں بھٹکے ہے انجمؔ
ہوا جب سے دُشمن، شمس و قمرہے
پیاسا انجمؔ
34ریشم گھر کالونی جموّں
موبائل نمبر؛9419101315
تنہائی کی رات عجب ہے
آنکھوں میں برسات عجب ہے
دل کو تم نے توڑ دیا کیوں
اے ساتھی یہ بات عجب ہے
ہمدم ہم سے جیت گیا تو
ہم نے کھائی مات عجب ہے
سچی لگتی جھوٹ ہے تیری
تیری تو ہر بات عجب ہے
دل کو لے کر درد دیا کیوں
یہ کیسی سوغات عجب ہے
اک دھرتی اور ایک ہے انساں
لیکن سب کی بات عجب ہے
ہر پل اپنا روپ بدلتا
انسانوں کی ذات عجب ہے
بسملؔ کیسا روگ لگا ہے
پیڑ کا ہر ایک پات عجب ہے
پریم ناتھ بسملؔ
مرادپور، مہوا، ویشالی۔ بہار
رابطہ۔8340505230
اکیلے چھوڑ جاتے ہو ،یہ تم اچھا نہیں کرتے
ہمارا دل جلاتے ہو ، یہ تم اچھا نہیں کرتے
کہابھی تھا کہ یاری ہے تو یاری ہی رکھو اس کو
تماشہ جو بناتے ہو ،یہ تم اچھا نہیں کرتے
اٹھاتے ہو سر محفل فلک تک تم ہمیں لیکن
اٹھا کر جو گراتے ہو، یہ تم اچھا نہیں کرتے
کوئی جو پوچھ لے تم سے کہ رشتہ کیا بنا ہم سے
تو نظروں کو جھکاتے ہو ،یہ تم اچھا نہیں کرتے
بکھر جائیں اندھیروں میں ،سہارا تم ہی دیتے ہو
مگر پھرچھوڑ جاتے ہو، یہ تم اچھا نہیں کرتے
محمد الیاس
ریسرچ سکالر،
NIEPA نئی دلی
غمِ ہَستی سے کیا پوچھوں کہ تیرا مدعا کیا ہے
مجھے اے زندگی تو ہی بتا میری سزا کیا ہے
دلِ پژمردہ گھبرا کیوں رہا ہے بزم ہستی سے
ہوا تنہا تو پھر اس زندگانی کا مزا کیا ہے
سمٹا جارہا ہے روح کا عالم، مرا ہر دم
کسی کے کام گر آئے نہیں تو پھر سزا کیا
ہر اک پل نوک خنجر آزمائے جارہا ہے وہ
جزاء گر یہ محبت کی ہوئی تو پھر سزا کیا ہے
سفر میں زندگی کے اب ہے ہمراہ میرا شیدائی
رقابت پر اُتر آئے وہی تو ہمنوا کیا ہے