در و دیوار کہ ویران ہوئے جاتے ہیں
شہر کے شہر بیابان ہوئے جاتے ہیں
میں بھی سورج کو ہتھیلی پہ لئے پھرتا ہوں
اور جگنو ہیں پریشان ہوئے جاتے ہیں
تم ہی آؤ مری محفل میں کوئی رنگ جمے
ورنہ سب تو یہاں بے جان ہوئے جاتےہیں
با وفائی کا چلو کچھ تو نتیجہ نکلا
میرے ہرجائی پشیمان ہوئے جاتے ہیں
آؤ کچھ دیر ہی چلتے ہیں رہِ منزل پہ
اب یہ رستے بھی تو انجان ہوئے جاتے ہیں
کیوں ہواؤں سے بغاوت پہ اَڑے ہو جاویدؔ
چار سُو قتل کے سامان ہوئے جاتے ہیں
سردارجاویدخان
مہنڈر، پونچھ
موبائل نمبر؛9419175198
چلو راحت ہے دنیا میں ابھی ایما ن باقی ہے
بڑی حیوانیت کے درمیاں انسان باقی ہے
مچلتا ہے یہ دل اب تک تیری یا دیں بھی ہیں زندہ
ابھی میں مر نہیں سکتا ترا ارمان باقی ہے
تری خوشبو ہے سانسوں میں تری آہٹ ہے ہر دھڑکن
مرے اس جسم ِ فا نی میں تیرا ساما ن باقی ہے
مجھے آئینہ دو میں بھی تو دیکھوں غور سے خود کو
مرے چہرے پہ کس کی اب تلک پہچان باقی ہے
بڑی دلچسپ ہے نا یا ب ہے لیکن ادھوری ہے
ابھی تیری مری تخلیق کا عنوان باقی ہے
ہے منزل دور ہم بھی آبلہ پا ہیں مگر پھر بھی
نہیں رکنے کی یہ تحریک جب تک جا ن باقی ہے
مٹانے آ ئیں گے وہ اور تھک کر لوٹ جائیں گے
کہ سچ قائم رہے گا جب تلک عرفانؔ باقی ہے
عرفان عا رف ؔ
اسسٹنٹ پروفیسر اردو ، پونچھ
موبائل نمبر؛9858225560
دِل نہ ٹھنڈی سی آہ بھرتا کیا
غم کی صو‘رت میں اور کرتا کیا
حوصلے تھے بُلند اِس دل کے
میں غمِ زندگی سے ڈرتا کیا
غم و آلام نے تھا گھیرا مُجھے
ایسے حالات میں اُبھرتا کیا
جِتنے غم تھے دیئے اُس کے تھے
ایسے میں اُس کویاد کرتاکیا
وہ تھا اُلجھا ہوا زمانے سے
وہ کبھی مجھ کویاد کرتاکیا
اُس کو فُرصت کہاں تھی اِتنی بھی
میرے کو‘چے سے وہ گُذرتا کیا
سربہ سر میں صحرا تھا ہتاشؔ
مُجھ پہ بادل کوئی برستا کیا
پیارے ہتاش
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
کوئی مسجد کوئی مندر نہیں ہے
جبھی لوگوں کے دل میں ڈر نہیں ہے
بڑے دلکش ٹھکانے ہیں سبھی کے
کسی کے پاس لیکن گھر نہیں ہے
پرندے یوں ہی جا کے گھومتے ہیں
کسی کا شہر میں چکّر نہیں ہے
ابھی تک میں وہیں ٹھہرا ہوا ہوں
تِرے آنے کی صورت پر نہیں ہے
نظر میں یوں سبھی بیمار ہیں پر
کسی اک کو بھی دردِ سر نہیں ہے
یہ شاعر اور کوئی ہو تو ہو پر
ہمارے گاؤں کا اِندرؔ نہیں ہے
اِندرؔ سرازی
پریم نگر ،ضلع ڈوڈہ، جموں
موبائل نمبر؛7006658731
اپنے ہی دشمن تھے ہم اغیار سے ڈرتے رہے
زندگی بھر کاغذی تلوار سے ڈرتے رہے
ہم نے ہر گز بھی حمایت کی نہیں مظلوم کی
اتنے جرأت مند تھے سرکار سے ڈرتے رہے
آج وہ عشق و محبت کی دہائی دے گئے
عمر بھر جو عشق کے اظہار سے ڈرتے رہے
کون سمجھا ہے تری آنکھوں کی بیباکی یہاں
ہم ترے لہجے ترے گفتار سے ڈرتے رہے
ایسے بھی کچھ تجربے تھے عہدِ ماضی میں کہ ہم
دو پہر کی دھوپ میں اشجار سے ڈرتے رہے
سید وقاردانش
سرفراؤ کنگن گاندربل
موبائل نمبر؛ 8491848782
خزاں کی رُت ہی کیا کم تھی گلوں کا رنگ اُڑانے میں
بچا طوفان سے تنکا نہ کوئی آشیانے میں
مرے احباب و دلدارو نہ ہو مغموم پت جھڑ سے
خوشی ملتی ہے درد و غم ہی سہنے سے زمانے میں
کسی کی زندگی سونے کے محلوں میں گزرتی ہے
کہیں ہے کشمکش دو وقت کی روٹی کمانے میں
کوئی مجنوں، کوئی رانجھا، کوئی فرہاد کہتے ہیں
میں کہتا ہوں سبھی کے گُن ہیں تیرے اس دوانے میں
ستمگر کیا کہوں احوالِ دل تم سے محبت میں
لگادی عمر ساری ایک ہی وعدہ نبھانے میں
اگر بس بات اتنی ہے تو پھر کیوں شور ہے برپا
زمانے کو پریشانی ہے کیونکر تیرے آنے میں
چلو الیاسؔ ہم تم بھول جائیں تلخیاں پھر سے
گزایں وقت اپنا گلستان کے گل سجانے میں
محمد الیاس کرگلی
ریسرج اسکالر۔ دہلی یونیورسٹی .موبائل نمبر؛ 6005412339
اپنا سب کچھ میں وار دوں؟ اچھا
تیرا صدقہ اتار دوں؟ اچھا
دل تو تم پہ نثار کر ڈالا
یعنی اب جان وار دوں؟اچھا
حُزن ہو،غم ترا ہو آہیں ہوں
زندگی یوں گزار دوں؟ اچھا
اپنی حالت خراب ہے، سو ہے
تیری خاطر سدھار دوں؟ اچھا
آج ہی تو دکان کھولی ہے
آج ہی سے اُدھار دوں؟ اچھا
تو جو چاہے وہی ہو، ویسا ہو
تجھ کو سب اختیار دوں؟اچھا
میں عقیلؔ ان کو پانے کی خاطر
خود کو ہی مستعار دوں؟ اچھا
عقیل فاروق
طالب علم
شعبہ اردو ، کشمیر یونیورسٹی
شوپیان،موبائل نمبر؛8491994633
دئے کی طرح جلتا جا رہا ہوں میں
خود سے آگے نکلتا جا رہا ہوں میں
روشنی میں ابھرنا ہے مجھے لیکن
تیرگی میں اْترتا جا رہا ہوں میں
رات کے نام پر دن دیکھتا ہوں اب
منظروں سے بکھرتا جا رہا ہوں میں
دیکھتا جا رہا ہوں وہ شمع سا چہرہ
اور پر اپنے کترتا جا رہا ہوں میں
کس طرح سے بہلنا تھا مجھے اْس سے
کس طرح سے بہلتا جا رہا ہوں میں
کیا عجب ہے کہ اتنی بڑی دنیا میں
اس ہی سے مات کھاتا جا رہا ہوں میں
راقم حیدر
شالیمار سرینگر، حال بنگلور ،موبائل نمبر؛9906543569
ستم دل کا سناتے ہی سبھی کچھ بھول جاتے ہیں
تمہارا نام آتے ہی سبھی کچھ بھول جاتے ہیں
اندھیروں میں سماتے ہی سبھی کچھ بھول جاتے ہیں
چراغوں کو بجُھاتے ہی سبھی کچھ بھول جاتے ہیں
پرانے پیڑوں کے سائے نہیں ہیں یاد بچوں کو
نئے پودے لگاتے ہی سبھی کچھ بھول جاتے ہیں
ہمارے دل میں کوئی بھی گلہ ٹک ہی نہیں پاتا
تمہارے مسکراتے ہی سبھی کچھ بھول جاتے ہیں
خدا کے نام پر کھائی ہوئی قسموں کی خاطر ہم
عداوت کو مٹاتے ہی سبھی کچھ بھول جاتے ہیں
رفاقت کی ہوائوں کا وہاں میلہ سا لگتا ہے
سو اپنے گھر کو جاتے ہی سبھی کچھ بھول جاتے ہیں
ہزاروں زخم ہاتھوں کے کروڑوں غم کمانے کے
ہم اپنے گھر کو جاتے ہی سبھی کچھ بھول جاتے ہیں
ہمارے شعر کی عذراؔ اہانت سب کریں لیکن
تمہاری داد پاتے ہی سبھی کچھ بھول جاتے ہیں
عذرا حکاک
طالبہ شعبٔہ اُردو،کشمیریونیورسٹی، سرینگر
چاند تارے شب اُتر آے نظر کے سامنے
ہاتھ میں نےجب اٹھائے سنگِ در کے سامنے
بات خود سے جو پسِ دیوار میں نے کل کہی
آج چرچا ہے اُسی کا رہگذر کے سامنے
میں چناروں کے نگر کا اک مسافر ہوں مگر
دور تک چھائوں نہیں میری نظر کے سامنے
پھول، کلیاں سب یہاں گلچیں اُڑا کر لے گیا
ہے ابھی مجرم مگر بلبل شجر کے سامنے
لب کشائی ہم کریں گے حق شناسی پہ یہاں
سر ہمارا کیوں نہ ہو تیرو تبر کے سامنے
مال و زر کو لوٹنا تو راہزن کا کام تھا
دل مگر آ کے لُٹا ہے ہم سفر کے سامنے
بارشیں تھمتے ہی عارفؔ پنچھیوں کےواسطے
شوق سے دانے بچھانا بام ودر کے سامنے
جاوید عارف
پہانو شوپیان کشمیر ۔۱۹۲۳۰۳
موبائل نمبر؛9797111172