محصور سا اب سر پہ گگن دیکھ رہا ہوں
زنداں کی طرح اپنا وطن دیکھ رہا ہوں
جو دل پہ گزرتی ہےبیاں اُسکا ہے مشکل
میں سہما ہوا اپنا سخن دیکھ رہا ہوں
آمد پہ بہاروں کی ہیں گلشن کی نگاہیں
یژمردہ ہوئے سرؤ و سمن دیکھ رہا ہوں
تھک ہار کے ہیں روح نے پر اپنے سمیٹے
کچھ ٹوٹا ہوا اپنا بدن دیکھ رہا ہوں
ہیں بستیاں جیسے کہ خزاں خوردہ گلستاں
میں گھر میں کِھلے پھولوں کے بن دیکھ رہا ہوں
ہر سمت نظر آتا ہے تحریک کا فقدان
"میں وقت کے چہرے پہ تھکن دیکھ رہا ہوں"
ممکن ہے کوئی صور لئے چل ہی پڑا ہو
افسردہ ہوئے کوہ دمن دیکھ رہا ہوں
آئینہءکردار پہ یہ گرد کی تہہ کیوں
بسملؔ میں تیرا اور چلن دیکھ رہا ہوں
خورشید بسملؔ
تھنہ منڈی، راجوری،موبائل نمبر؛9622045323
حُسن جب بھی جوان ہوتا ہے
ہر قدم امتحان ہوتا ہے
جب بھی آئے نکھار کلیوں پہ
چرچا ہر اک زبان ہوتا ہے
پھر بھی لگ جائے یہ پتہ سب کو
عشق تو بے زُبان ہوتا ہے
دِل کی آتی نہیں لبوں پہ تو
ذکر پر کانوں کان ہوتا ہے
آگ جب بھی لگے برابر تو
آنکھ سے سب بیان ہوتا ہے
جِس میں ہر بات لکھی جاتی ہے
دِل کا اپنا دیوان ہوتا ہے
عشق جن کو قبول ہو انجمؔ
ساتھ اُن کے جہان ہوتا ہے
پیاسا انجمؔ
ریشم گھر کالونی جمّوں
چلا یوں جانبِ منزل یہ اپنا کارواں یارو
لٹے اسباب رستے میں بٹے سب رہ رواں یارو
گذشتہ رات ظالم چاند بن کر جگمگایا تھا
گواہی جس کی دیتا ہے سلگتا آسماں یارو
چلی پھر بے کسوں کے تن پہ گولی فتنہ پرور کی
ہوا پھر خون میں لت پت کوئی جنت نشاں یارو
تڑپتی ماں کے دل سے پوچھ لوگے تو بتا دیگا
لٹے کن ظالموں کے ہاتھ سے بستے مکاں یارو
یہ بیوائیں جو راہیں تک رہی ہیں کتنے برسوں سے
اُنہیں پوچھو جلائے کس نے اُن کے آشیاں یارو
چناروں کےگھنے سایوں سےجم کرآگ برسےگی
بہاروں نے کئے جو داغِ دل اپنے عیاں یارو
بنے گا اب کے موسم بھی نشاں شاید میرا کشمیر
چھڑی جو پھر سے کوئی جنگ عدو کے درمیاں یارو
آفاقؔ دلنوی
دلنہ بارہمولہ کشمیر،موبائل نمبر؛7006087267
زمین قاتل، فلک قاتل ،ہے قاتل زندگی اپنی
سرکتی جارہی بے بس صدائے سر خوشی اپنی
خدائی قہر سے کیسے نمٹ پائے گی یہ دُنیا
ہمارے کام کب آئے گی آخری بند گی اپنی
تقاضا ہے سماجی دُوریاں قائم رہیں یوں ہی
عجب بے چارگی اپنی، عجب ہے بے بسی اپنی
قیامت کی ہے دستک سر پھرے ’’کرونا وائریس‘‘ کی
اندھیروں سے اُلجھتی جارہی ہے روشنی اپنی
گھروں کی،شہر کی رکھنا صفائی لازمی یارو
یہی دُشمن ہماری آج بھی آلودگی اپنی
رہو تم گھر کے اندر ہی یہی اپنی حفاظت ہے
بچائے گی ہمیں آخر ہماری آگہی اپنی
سنبھل جائو ذرا سوچو یہ طالبؔ حادثہ کیسا
مٹائے جارہی ہے کیوں ہمیں یہ زندگی اپنی
شام طالبؔ
جموں،موبائل نمبر؛9419787665
دنیا کی نگاہوں میں کیا بگڑا ہوا ہوں میں
ہر وقت ہر اک شئے سے شرمندہ ہواہوں میں
ظالم نہ گراں گزرے تیری چال مجھ پہ کیوں؟
تیری انہی چالوں سے تواُکھڑا ہوا ہوں میں
پھینکا ہے تو نے مجھ کو غموں کے بھنور میں پھر
طوفاں کی لپیٹوں میں یہ جکڑا ہوا ہوں میں
ہوتی نہیں گوارا شبِ غم کی یہ گھڑیاں
تنہائیوں کے خول میں سمٹا ہوا ہوں میں
ملتا نہیں آرام یہ دل اب ہے پریشاں
تیرے کرم کے سائے سے بچھڑا ہوا ہوں میں
جائیں گے شعاعؔ چھوڑ کے اب روئے زمین کو
انکی نگاہِ شوق کو ترسا ہوا ہوں میں
محمد زاہد اقبال شعاعؔ
دُدداسن بالا کائیاں، راجوری
موبائل نمبر؛9086781265
اے رب کائنات اب مجھ کو سنبھال تو
بے بس ہوں اس قدر کہ مصیبت نہ ڈال تو
داخل ہوئے ہیں اہلِ وفا شہر ذات میں
اب ایسی بات ہے کہ کر کچھ کمال تو
شامل ہے تیری ذات اسی لوٹ پاٹ میں
دولت نہ کر قبول رکھ اب اعتدال تو
صحرانشیں نے ظلمتِ شب کو صلاح دی
دن کو نکال پھوٹ کے شب کا جمال تو
کس کا جواب ڈھونڈ رہے ہو اے ہمنوا
تو خود سوال بن مگر نا کر سوال تو
حاصل ہو اس قدر تمہیں وہ دولت عظیم
مثل خلیل بن کے آ اے میرے لال تو
کیسا مصیبتوں میں ہے شاہیںؔ کی زندگی
اُس حسنِ پُرجمال کو پاکر سنبھال تو
فاروق شاہینؔ
ہندوارہ، کشمیر
جلائوو ساری قندیلیں چلو روشن فضا کر لو
مٹا کے ہستی، انسان، اب خود کو خدا کر لو
تمہیں ڈر تھا میرے ہونے سے گلشن کے اْجڑنے کا
چلو اب میں نہیں باقی چمن کو تم ہرا کر لو
میں اک ننھا پرندہ تھا میری پرواز باقی تھی
مجھے بے پر کیا، کفارہ اب تم بھی اَدا کر لو
میرے سپنے بکھیرے کیوں میری دنیا اُجاڑی کیوں؟
ہے گر تسکیں تباہی میں چلو سب کچھ تباہ کر لو
یہ کیسا خوف قائم ہے یہ کس ڈر کی حکومت ہے
رہے گا نام حق باقی، بھلے تم انتہا کر لو
مصباحؔ فاروق
طالبہ :شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
رُودادِ چمن
بہاروں کا ہے منتظر گلستاں
کہ چھائی ہوئی ہے چمن پر خزاں
یہ مُرجھائے پھولوں کی رُوداد ہے
یہ اُجڑے چمن کی ہے اک داستاں
اجھاڑا ہے آندھی نے کیسے اسے
جو گذری قیامت کروں کیا بیاں
ہیں کوہ و دمن خون سے لالہ زار
کہ حیرت میں ہیں یہ زمین آسماں
جلے ہیں نشیمن یہاں کس قدر
بتائے گا تم کو یہ اُٹھتا دُھواں
پرندے فضاؤں میں مغموم ہیں
چہکنے سے قاصر ہے ان کی زباں
بچھائے ہیں اب جال صیاد نے
کہ چھینے پرندوں کی آزادیاں
ہے غمگین کتنا یہ میرا چمن
کہ مسلی گئی کتنی کلیاں یہاں
کہوں اور کیا، اورکہوں کس طرح
کہ حالت چمن کی ہے سب پر عیاں
ہے ہم کو تو دُکھ بس اسی بات کا
ہے خاموش کیوں اس پرسارا جہاں
لکھوں اس چمن کی میں رُوداد کیا
قلم ہے حِجازیؔ کا ماتم کُناں
وسیم حِجازیؔ اگلر،پٹن بارہمولہ موبائل نمبر؛ 9797068044