کچھ نہ کچھ تو بات ہے تکرار میں
ہے لگا اقرار کیوں انکار میں
عشق ہوتے دیر تو لگتی نہیں
عمر لگتی ہے مگر اظہار میں
دِل کے بدلے دِل دیا جائے حضور
دِل کبھی بِکتا نہیں بازار میں
آ پ کے آگے کہاں ٹِک پائے گا
دَم کہاں ہے عشق کے بیمار میں
دِل کی بازی میں ہی دِل ہے ہارتا
جیت لگتی پھر بھی دِیکھو ہار میں
عشق کو دینا سزا بس عشق کی
التجا ہے آپ کے دربار میں
آپ کا دِیوانہ انجمؔ ہو گیا
ہو نہ پاگل دیکھنا اب پیار میں
پیاسا انجمؔ
/34 ریشم گھر کالونی جموّں
موبائل نمبر؛9419101315
چلا یوں جانبِ منزل یہ اپنا کارواں یارو
لٹے اسباب رستے میں بٹے سب رہ رواں یارو
گذشتہ رات ظالم چاند بن کر جگمگایا تھا
گواہی جس کی دیتا ہے سُلگتا آسماں یارو
چلی پھر بے کسوں کے تن پہ گولی فتہ پرور کی
ہوا پھر خون میں لت پت کوئی جنت نشاں یارو
تڑپتی ماں کے دل سے پوچھ لوگے تو بتا دیگا
لٹے کن ظالموں کے ہاتھ سے بستے مکاں یارو
یہ بیوائیں جو راہیں تَک رہی ہیں کتنے برسوں سے
اُنہیں پوچھو جلائے کس نے اُن کے آشیاں یارو
چناروں کےگھنے سایوں سےجم کرآگ برسےگی
بہاروں نے کئے جو داغِ دل اپنے عیاں یارو
بنے گا اب کے موسم بھی نشاں شاید میرا کشمیر
چِھڑی جو پھر سے کوئی جنگ عدو کے درمیاں یارو
آفاقؔ دلنوی
دلنہ بارہمولہ کشمیر،7006087267
مجھ کو دنیا بری نہیں لگتی
کوئی اس میں کمی نہیں لگتی
سوگ مرنے کا کیا کریں اب کے
جب خوشی ہی خوشی نہیں لگتی
کوئی مہمان جب سے ٹھہرا ہے
دل حویلی مری نہیں لگتی
مجھ سے روٹھا ہے جب سے کوئی تو
زندگی ،زندگی نہیں لگتی
دل تو بے مول بک ہی جاتا ہے
اس کی قیمت کبھی نہیں لگتی
اب نظر میں کوئی نہیں جچتا
اب پری بھی پری نہیں لگتی
ساری دنیا تو ہے اسی صورت
ایک انجمؔ وہی نہیں لگتی
فریدہ انجم
پٹنہ سٹی، بہار
موبائل نمبر؛7739032672
آ! ذرا آج اک چھوٹی سی ملاقات تو کر
کیا خبر موقع ملے پھر کبھی، بات تو کر
ہوکے مجبور وہ آئے کبھی ملنے مجھ سے
پیدا اللہ ذرا ایسے ہی حالات تو کر
رات رونے میں کٹے، دن کی سنائیں کیا کیا
روز و شب میںمرے محبوب مساوات تو کر
اے زماں ساز! زمین کی تو حقیقت پہچان
ہیں ترے نام، ادا سارے وہ واجبات تو کر
سارے عالم سے مٹے جس سے کورونا وائرس
ایسی ربّا مرے اب کوئی کرامات تو کر
کیا کبھی چھوڑا ہے تنہا تجھے اُس نے دلگیرؔ
آج خود سے ذرا کچھ ایسے سوالات توکر
ظہور احمد منشی دلگیرؔ
بٹہ مالو سرینگر
موبائل نمبر؛9419244455
فرعونِ عہد کی تیغ تلے گفتار کر رہا ہوں
میں دہر کے شعلوں سے دہن انگارکر رہا ہوں
ظلمت کو اشکِ خوں سے نمودار کر رہا ہوں
میں ہر دم یہی کام مرے غمخوار کر رہا ہوں
سفینہ کو موجوں سے ٹکرا کر شب و روز
میں بحرِ غم کی روانی سخت دٌشوار کر رہا ہوں
آہ و فغاں کا دور ہے، بسمل ہے ہر اک قلب
نالوں سے اپنے شہہ کو رسوا و خوار کر رہا ہوں
قفسِ ذہن میں جو بھی مرے انصار قید ہیں
میں بے آس مسلسل اٌنکا انتظار کر رہا ہوں
لوح و قلم سے امجدؔ اگرچہ ربط نہیں باقی
خاموشی کو میں کیونکر مگر اختیار کر رہا ہوں
امجد اشرف
رابطہ؛ شلوت، سمبل سوناواری، بانڈی پورہ
موبائل نمبر؛7889440347