جال
سپنے بنتے بنتے
جانے کب بن بیٹھی تھی میں
اپنے لئے اک جال
وقت نے شاید چلی تھی چال
جس نے کیا مجھکو بے حال
پریت کا کب بن بیٹھی میں
ایک ریشمی جال
کچھ پتا ہی نا چلا
کب ہوش گنوائے
کب ہوئ بے حال
کچھ پتا ہی نہ چلا
جب حیات ہوئی بے تال
اور جینا ہوا محال
تب دکھ کا دیکھا جال
تقدیر نے چل دی چال
سب روگ لئے تھے پال
ہر پل بنا جنجال
یہ کیسا آیا کال
کچھ پتا ہی نہ چلا
جسپال کور
نئی دلی، انڈیا
موبائل نمبر؛09891861497
’’ بھوک‘‘
ارے یہ کون دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔
کس نے ہم کو اتنا ڈرایا۔۔۔
ارے وہ پھر سے آیا۔۔۔
پر کیوں آیا۔۔۔
جس نے بزرگوں کو ہے کھایا۔۔۔
جس نے بچوں کو ہے چبایا۔۔۔
ارے وہ پھر سے آیا۔۔۔
پرکیوں آیا۔۔۔
یہ شیر بھوکا ہے شکار کرنے آیا۔۔۔
ہم کو اس نے بہت ستایا۔۔۔
کیوں اس کو جنگل نہیں ہے۔۔۔
ہم اپنے گھروں میں بھی ڈرتے ہیں۔۔۔
ارے وہ پھر سے آیا۔۔۔
پر کیوں آیا۔۔۔
اب کس کو یہ کھانے آیا۔۔۔
کب تک اس کی بھوک مٹے گی۔۔۔
جس بھی گھر میں ڈاکہ ڈالا۔۔۔
اس گھر کو یہ صاف کر ڈالا۔۔۔
کیوں اب کہاں جائیں ہم۔۔۔
کتنا دکھ دیا کب تک سہیں گے ہم۔۔۔
ارے اٹھاوسب اپنے ہتھیار۔۔۔
سب مل کر چلو اس کو بھگادیں۔۔۔
بہت سہا ہے اب نا سہیں گے۔۔۔
ارے وہ پھر سے آیا۔۔۔
پر کیوں آیا۔۔۔
میسرہ عبداللہ
بنڈگام بڈگام
نظم
احسن التقویم تھا میں
میرا علم اور میرا تدبر
میرا حلم اور میرا تعقل
چہار دانگ عالم تھا شہرہ
میں معتبر تھا میں نامور تھا
میں ہرہنر میں کارگر تھا
پتہ نہیں پھر یہ کب ہوا ہے
غرور نے دل میں سر اٹھایا
میں اپنے منصب سے نیچے آکر
اسفل السافلین بنا کب
اسم تو ہوں معروف لیکن
میرا مسمیٰ کہیں نہیں ہے
جو دل سے درد اُٹھ گیا ہے
کیا ہے در بند ،مجھے کیا رد
عذاب تیرا میری زمیں پر
وبا کی صورت اُتر رہا ہے
فصلِ گل ہو، خزاں کا موسم
بلا کی گرمی، ٹھٹھرتی سردی
ہرایک لمحہ، ہر ایک لحظہ
اب دردو غم کا اسیر ہوکے
ہر آستاں کا فقیر ہو کے
ہر اک سبب سے بچا کے دامن
تمہارے درپہ پڑا ہوا ہوں
فیروزہ مجید
ترال، کشمیرموبائل نمبر؛9906870781