جہد سے جو گریز کرتا ہے
وہ تو جینے سے پہلے مرتا ہے
دیر تک ٹھوکروں میں رہتا ہے
تب کہیں آدمی سنبھلتا ہے
نور تیرا ہے ایک اک شئے میں
تو ہی خاکوں میں رنگ بھرتا ہے
اب نہیں ہے وحوش سے وحشت
آدمی آدمی سے ڈرتا ہے
ہرکوئی عارضی سا نظّارا
خودبخود خاک میں بکھرتا ہے
گفتگو بھی سلیقہ چاہتی ہے
ورنہ انساں نظر سے گرتا ہے
رُک سی جاتی ہیں دھڑکنیں دل کی
جب وہ جانے کی بات کرتا ہے
حال بسملؔ کا پوچھتے کیا ہو
سَو جتن کرکے دل گزرتا ہے
خورشید بسمل
تھنہ منڈی ، راجوری
موبائل نمبر؛9086395995
غزلیات
چمن کے نو دمیدہ گُل بہاروں سے خفا بیٹھے
صباحت میں خلش پیہم اسیرِغم ہوا بیٹھے
ابھی فردِ وفا اِک جاں بہ لب ہے شہرِ گریاں میں
تبھی سب پا بہ گِل پہلے بچھا فرشِ عزا بیٹھے
کہا جب اہلِ بینش نے جلالِ پادشاہی کیا
غبارِ رہ اُٹھا کر ہم ہوا میں تب اُڑا بیٹھے
ہوائیں راج کرتی ہیں بُجھا کر شمع اُلفت کو
یہ سُن کر کُنجِ عُزلت میں ستم کش مُسکرا بیٹھے
کمالِ صبر بھی ہم کو میسر تھا مگر ہم تو
جنوں میں اپنی ہستی کو زمانے سے مٹا بیٹھے
ہماری حسرتوں پر اب لگے قدغن عداوت کی
حریفوں کی حمایت میں رفیقوں کو ستا بیٹھے
متاع و مال میرا سب لُٹایا رہبروں نے ہے
گلہ اب رہزنوں سے کیا کہ امجد ؔ وہ بچا یٹھے
امجد اشرف
شلوت، سمبل سوناواری
موبائل نمبر؛ 7889440347
تجھے دیکھ کر میں غزل لکھ رہا ہوں
ترا ہر قدم، ہر عمل لکھ رہا ہوں
ترا چہرہ سورج کی ٹکیہ سمجھ کر
ترا جسم، مثل کنول لکھ رہا ہوں
ہر انساں سمجھ لے میری شاعری کو
غزل ا س لئے میں سرل لکھ رہا ہوں
ملاقات کر لونگا میں آج آکر
گو پیغام میں لفظِ کل لکھ رہا ہوں
جو دردِ نَہاں تونے کاشف ؔکو بخشا
میں بے حال ہوکر اٹل لکھ رہا ہوں
اظفر کاشف پوکھریروی
بہار،پوکھیرا، سیتامڑھی بہار
موبائل نمبر؛9149833563
خیالِ انجمن
(پہلگام کی شہرہ آفاق لدر ندی سے مخاطب)
تری مستانہ لہروں کو جو دیکھا بانکپن آیا
ترے ساحل پہ بیٹھا تو جنونِ کوہ کن آیا
لچکنا، جُھومنا، مُڑنا، پلٹ کر پھر سے بَل کھانا
اری ناگن صفت تُو نے، کہاں سے یہ چلن پایا
رگوں میں برف کی خُنکی، روش میں آگ کی گرمی
چمکتا، دُودھیا پیکر، کہ کوئی سیم تن آیا
چھلک کر برف زاروں سے، اُچھل کر آبشاروں سے
چٹانین کاٹ کر بڑھنا کہ گویا تیشہ زن آیا
تری جہدِ مسلسل کا ،ترے ٹکرائو کا حاصل؟
سُبک رنگ جھاگ کا آنچل، دھنک کا پیر ہن پایا
صبح ہو، شام ہو، گرمی ہو یا سردی کی شدت ہو
تُجھے، ہرحال میں ہم نے رواں اور گامزن پایا
لِدر تیری روانی کو نہ احساسِ تھکن آیا
ترے اس کارواں کو کب خیالِ انجمن آیا
یوسف نیرنگؔ
بوگنڈ، کولگام
موبائل نمبر؛9419105051
بابا
(واقعہ سوپور اور بچے کی فریاد)
دل ٹوٹا ہے جوڑ کے جانا
بابا نہ مجھ کو چھوڑ کے جانا
گھر کیسے میں جائوں گا اب
امی کو کیا بتائوں گا اب
ہمت کہاں سے لائوں گااب
منہ نا ایسے موڑ کے جانا
بابا نہ مجھ کو چھوڑ کے جانا
میں تو چھوٹا سا بچہ ہوں
میں بے چارا ہوں، سچا ہوں
کہونا بابا، میں اچھاہوں
دل نا میرا توڑ کے جانا
دل ٹوٹا ہے جوڑ کے جانا
جانے کیسا تھا یہ اَ ظلم
کون لگائے گا اب مرہم
سحرؔ کا دل ہوا ہے برہم
آنکھ سے اشک نچوڑ کے جانا
بابا نہ مجھ کو چھوڑ کے جانا
ثمینہ سحر مرزا
بڈھون، راجوری
غزل
اپنوں نے بھی چھیڑا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
غیروں کا بھی دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
عادت ہے میری رہتا ہوں خاموش ہمیشہ
ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وہ ساز اُٹھایا کہ میں خاموش ہوا ہوں
نغمہ یہی چھیڑا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
آنکھوں سے کئی بار کہا اُس کو بہت کچھ
پھر بھی کوئی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
انعام ملا ہے مجھے یہ غم بھی کسی سے
دل درد کو سمجھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ہر بات بتائی میں نے خاموش نگہ سے
بے درد یہ سمجھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
انصاف کی چوکھٹ پہ بھی خاموش رہا ہوں
عادل ؔکا کلیجہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
اشرف عادلؔ کشمیر
یونیورسٹی حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛ 7780806455
قطعات
ہر چیز گنوانے سے کچھ بھی نہ لُٹا بیٹھا
جب وقت گنوایا تو خود کو ہی مٹا بیٹھا
ہر پل کو جو گنتا ہے پاتا ہے وہی منزل
دوری کی جو سوچے گا وہ عمر گھٹا بیٹھا
خواہشوں کے جال سے باہر نکل کے دیکھ لو
دل سکوں پائےگا لیکن کچھ سنبھل کے دیکھ لو
کیوں زمانے سے شکایت بے سبب کرتے رہیں
سب کو اپنا پائو گے خود کو بدل کے دیکھ لو
خون کے سوداگروں کو رہنما کہتا ہے کون
ہیں بظاہر آدمی، انساں بھلا کہتا ہے کون
خون ناحق ہیں بہاتے نسل و رنگ کے نام پر
وقت کے ان ظالموں کو، مرحبا کہتا ہے کون
سعید احمد سعید
احمد نگر سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛9906355293