بدن میں ہجر کا تپ تھا نئی بارش میں آ ٹھہرا
کہ میرا خاک زادہ آگ کی سازش میں آ ٹھہرا
نویلی شب کی چادر میں نگاہیں نیم عریاں تھیں
پرانے خواب کی اک تازہ پیمائش میں آ ٹھہرا
چمک اُٹھی ہے شبنم زرد موسم کی ہتھیلی پر
فلک نیلا یہ کس کا ہے مری گردش میں آ ٹھہرا
اُسے معلوم ہے کس کے فسوں کی زد پہ رہنا ہے
مرے کینواس پر آکر مری کاوش میں آ ٹھہرا
تکوں میں گھومتا کب تک وہ اپنا دائرہ لیکر
کسی قد کے برابر سائے کی لغزش میں آ ٹھہرا
اسی برسات میں مٹی یہ تن کی دُھل گئی ساری
کسی کا جسم میری روح کی ورزش میں آ ٹھہرا
مکاں کی وسعتیں شیدّاؔکہاں پر چھوڑ آئے تم
زمن کی دھڑکنوں کا شور اک جنبش میں آ ٹھہرا
علی شیدّاؔ
نجدون نیپورہ اسلام ا?باد،
موبائل نمبر؛9419045087
میرے خوابوں میں آنے سے کیا فائدہ
نیند میری اُڑانے سے کیا فائدہ
جبکہ تُجھ سے کوئی واسطہ ہی نہیں
پھر یہاں آنے جانے سے کیا فائدہ
تیری خوشبو ہے بکھری ہوئی چار سُو
میرے گھر کو جلانے سے کیا فائدہ
یہ ہوا بھی مخالف ہے کُچھ اِن دنوں
خاک میری اُڑانے سے کیا فائدہ
اے چراغِ سحر آخری وقت ہے
اس طرح پھڑ پھڑانے سے کیا فائدہ
ساز چھیڑو نہ پھر دِل مچل جائے گا
شدّتِ غم بڑھانے سے کیا فائدہ
باندھ لو اب تو جاوؔید رختِ سفر
اب یہاں دل لگانے سے کیا فائدہ
سردارجاویدؔخان
رابطہ؛مینڈھر پونچھ
موبائل نمبر؛ 9419175198
خواب میرا تھا اور کوئی
چُھپ کے بیٹھا چور کوئی
تیری دھڑکن سن نہ سکا
اپنا ہی تھا شور کوئی
عمر گزاری گردش میں
الجھی سی ہے ڈور کوئی
جو کچھ دیکھا ہے ہم نے
بھولے کا کس طور کوئی
اچھی رُت میں جُھوم اٹھے
من مندر میں مور کوئی
مشتاق مہدی
مدینہ کالونی، ملہ باغ، سریمنگر
موبائل نمبر؛9419072053
تیرے جلوئوں کا اثر جوں ہی سرِ عام ہوا
آج تری بات بنی، میں جو بدنام ہوا
خود سے یہ پوچھو لے ذرا کتنے محبوب ہوئے
میں بھی تھا شامل کبھی، آج گُمنام ہوا
میں نہ مانگوں گا کبھی اُس کے رنجوں کا صلہ
گر وہ میرے نہ ہوئے، کیسا انتقام ہوا
کیا میں بتلائوں اُسے کتنے رنگ رنگ لئے
میں بھی اب میں نہ رہا، کیا یہ الزام ہوا
محفلیں عام ہوئیں، جشن جو تیرے ہوئے
صوفیؔ جو ٹھہرا سخی، ہائے! خوش اندام ہوا
صوفی فیاض احمد
مجہ گنڈ، سرینگر
موبائل نمبر؛9419523027
کنارے پر اُترجانا مجھے اب لوٹ جانا ہے
تم اپنے دل کو سمجھا نا مجھے اب لوٹ جانا ہے
خزاں کو تم نہ اُکسانا مجھے اب لوٹ جانا ہے
ہوائوں سے نہ ٹکرانا مجھے اب لوٹ جانا ہے
مجھے تو لوٹ جا نا ہے اُفق کے پار اے ہمدم!
تمہیں آنا ہو یا جا نا مجھے اب لوٹ جانا ہے
سمندر کے اشاروں سے مجھے اب ڈر نہیں لگتا
ذرا طوفاں کو بتلانا مجھے اب لوٹ جانا ہے
تمہاری چاہ میں جانم بہت کچھ کھو دیا میں نے
ستم ہی تھا تمہیںپانا مجھے اب لوٹ جانا ہے
شکایت ہی نہیں اب کے ابابیلوں کے لشکر سے
مقدر میں تھا لُٹ جانا مجھے اب لوٹ جانا ہے
سہانی یادوں کا موسم سہارا بن ہی جائے گا
سو خود کو اب نہ ترسانا مجھے اب لوٹ جانا ہے
نہ جانے کیا تمہارا حشر کر دینگے یہاں کے لوگ
یہاں تم پھر سے مت آنا مجھے اب لوٹ جانا ہے
تمہارے شہر نے میری سدا تردید ہی کی ہے
میری قسمیں نہیں کھانا مجھے اب لوٹ جانا ہے
میں تیرے نام سے وابستہ اِک تہمت ہی تو ٹھہری
مجھے بس بھول ہی جانا مجھے اب لوٹ جانا ہے
مجھے رخصت کرو گے جب، میرے لفظوں کے و ہ مرحم
سبھی زخموںپہ رکھ آنا مجھے اب لوٹ جانا ہے
دھڑکتی دھڑکنیں عذرا ؔبلا کا قہر ڈھائیں گی
انہیں نغموں سے بہلا نا مجھے اب لوٹ جانا ہے
عذرا ؔحکاک
کشمیر یونیورسٹی ،سرینگر،[email protected]