یہ کس کی آمد سے غنچے کھلنے لگے چمن میں قدم قدم پر
یہ کس نے درسِ خودی سے روح کو جگایا تن میں قدم قدم پر
یہ کس نے اپنوں کے دُکھ سہے پر زباں سے شکوہ کیا نہ ہرگز
یہ کس نے خلقِ عظیم پیدا کیا چلن میں قدم قدم پر
غلاموں کو کس نے روشنی دی بتائے اسرار سلطنت کے
وگر نہ انسانیت تھی مُردہ پڑی کفن میں قدم قدم پر
یہ کس نے عورت کو بخشی عظمت عطا کیا اس کو تاجِ رفعت
لگا ديے ڈھیر خوشبوؤں کے ہر اک سَمن میں قدم قدم پر
یتیموں کے سر پہ ہاتھ پھیرا گلے لگایا گرے ہوؤں کو
چمک خوشی کی اُبھر کے آنے لگی نیّن میں قدم قدم پر
شفائیؔ لے ان کی بات دل میں انہی کو بس پیشوا بنا دے
قرار پھر دیکھنا کہ آنے لگے وطن میں قدم قدم پر
ڈاکٹر شکیل شفائیؔ
بمنہ/سرینگر