لمحہ وصالِ صبح کا مغرور ہوگیا
منشور ہجر یار کا منظور ہوگیا
اپنی انا کے جبر سے رنجور ہوگیا
شاعر صلیبِ حرف پہ مشہور ہوگیا
اک شخص مشقِ جور سے مغرور ہوگیا
یہ واقعہ بھی شہر میں مشہور ہوگیا
وہ ملک کیا کھلائے گا روٹی عوام کو
جس ملک کا کسان ہی رنجور ہوگیا
خاموش ہی جو جشن جنوں پر رہا وہ دل
بیڑی پہن کے رقص پہ مجبور ہوگیا
چڑھتا رہا صلیب پہ شب روز دوستو
اس شہر کا غریب بھی منصور ہوگیا
دیوانہ وار پیار کیا تھا جنون سے
ایسا کیا تھا رقص کہ مسرور ہوگیا
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛ 7780806455
ایسا نگاہ یار کا کچھ سلسلہ رہا
میں نے شراب چھوڑ دی پھر بھی نشہ رہا
ان کے نصیب میں تھا گلابوں بھرا چمن
دامن ہمارا کانٹوں سے پیہم بھرا رہا
موسم نجانے کتنے گزرتے ہیں خوشگوار
دل کا مگر یہ زخم ہرا تھا ہرارہا
در سے ترے ملا ہے طلب سے سوا مجھے
کاسہ سدا فقیر کا یوں ہی بھرا رہا
برباد ہو گیا ہوں ترے انتظار میں
شائد مری وفا کا یہی کچھ صلا رہا
میں نے تری جدائی میں سب کچھ بھلا دیا
اک یاد مجھکو تیرا وہ عہدِ وفا رہا
دولت ہے میرے پاس پرایا کوئی نہیں
غربت میں میرے یار تو مجھ سے جدا رہا
ساحل ردیف بھی ہے نئی، قافیہ نیا
مفہوم بھی غزل کا تمہاری نیا رہا
مراد ساحل
دوحہ ۔ قطر
موبائل نمبر؛9405187859
کوئی شاہین پنجرے میں پروں کو پھڑ پھڑاتا ہے
مصوّر دیکھتا ہے، سوچتا ہے، تلملاتا ہے
وہ اپنی موت کی خود ہی اگر افواہ اُڑاتا ہے
تو سمجھو دوستوں اور دشمنوں کو آزماتا ہے
سدا درپیش رہتا ہے کوئی منظر بھیانک ہی
ہر اک شہری جبھی تو بِن پئے ہی لڑکھڑاتا ہے
خوشی ہر شخص کے چہرے سے اب تو ہوچکی رخصت
غنیمت ہے کسی البم میں کوئی مُسکراتا ہے
ہمارے جسم و جاں کو وسوسے اب گھیر لیتے ہیں
بھکاری بھی اگر دروازہ گھر کا کھٹکھٹاتا ہے
کوئی لب کھول پاتا ہی نہیں ہے خونِ ناحق پر!
نہ رستہ بھول کر لشکر ابابیلوں کا آتا ہے
ہر ایک گھر میں نجانے روز چُولہا کیوں نہیں جلتا؟
امیرِ شہر پیہم دودھ کی نہریں بہاتا ہے
جن اپنوں کو جُدا ہم سے کیا سفّاک آندھی نے
اُنہی کو یاد کرکے دل مسلسل پھڑپھڑاتا ہے
ہمارے قافلے کو منتشر کِس نے کیا انظرؔ!
نیاقائد بھی کیوں کر خون کے آنسو رُلاتا ہے
حسن انظرؔ
بمنہ سرینگر
راستے میں کوئی دیوار بنانے لگا ہوں
وہ کہانی، تو میں کردار بنانے لگا ہوں
لوگ یہ کہہ کے بغاوت پہ اُتر آتے ہیں
میں انہیں اپنا پرستار بنانے لگا ہوں
اک زمانے کی ریاضت سے دوا ہاتھ لگی
اب دوا کے لئے بیمار بنانے لگا ہوں
یوں تو تصویر میں ہر چیز ہے لیکن اب میں
ایک لٹتا ہوا بازار بنانے لگا ہوں
کل کلاں تجھ کو کسی درد سے دھوکہ نہ لگے
اس لئے درد کے آثار بنانے لگا ہوں
میرے سب دوست ہیں دشمن کی صفوں میں تابشؔ
چند دن سے میں نئے یار بنانے لگا ہوں
جعفرؔ تابش
مغلمیدان، کشتواڑ
موبائل نمبر؛8492956626
جسم رقصِ شرر میں رکھا ہے
ہاں لباسِ بشر میں رکھا ہے
یہ جو تکتا ہے چاند کو سورج
اس نے خود کو قمر میں رکھا ہے
پریوں کے حسن پر ہے پڑتی نظر
اس لیے دل کو گھر میں رکھا ہے
اب یہ کیا ہو رہا ہے یا مولا!
شب کو کس نے سحر میں رکھا ہے
تجھ کو کیسے میں بھول سکتا ہوں
تجھ کو دل کے نگر میں رکھا ہے
بند رکھا ہے خود کو کمرے میں
اور عالم نظر میں رکھا ہے
تم کو معلوم ہے میاں بسملؔ
پاؤں کس کے نگر میں رکھا ہے
سید مرتضیٰ بسمل
شعبئہ اردو ساؤتھ کیمپس یونیورسٹی آف کشمیر
موبائل نمبر؛6005901367
صبح سے شام ہو گئی ہو گی
جاں تِرے نام ہو گئی ہو گی
عشق کی راہ میں کھا کے دھوکہ
اب وہ بدنام ہو گئی ہو گی
ہجر میں اشک پیتے پیتے وہ
رات کا جام ہو گئی ہو گی
عاشقی پہلے چھپ کے ہوتی تھی
اب سر عام ہو گئی ہو گی
موت اتنی بری نہیں ہو گی
یوں ہی بدنام ہو گئی ہو گی
زندگی انتظار میں تیرے
ہجر کی شام ہو گئی ہو گی
جب دعا نے اثر کِیا ماں کی
موت ناکام ہو گئی ہو گی
خوشبو جس کو تو کہتا تھا اِندرؔ
اب وہ گلفام ہوگئی ہوگی
اِندر سرازی
پریم نگر، ضلع ڈوڈہ، جموں کشمیر
موبائل نمبر؛7006658731