میں سمندر ہوں کنا روں میں کہاں رہتاہوں
تیری آنکھوں کے شکاروں میں کہاں رہتا ہوں
یوں نہ دیکھا افسردہ نگاہوں سے مجھے
میں ترے گھر کی دیواروں میں کہاں رہتا ہوں
آ کے دیکھو ذرا پھولوں پہ نکھار آیا ہے
تم تو کہتے تھے بہاروں میں کہاں رہتا ہوں
عمر کٹ سکتی ہے تنہا بھی کسی کی خاطر
میں کہ وحشی ترا یاروں میں کہاں رہتا ہوں
اُٹھتے گرتے ہی سہی پا لیا جنت کا سراغ
نسلِ آدم ہوں شراروں میں کہاں رہتا ہوں
ڈھونڈ سکتے ہو تو ڈھونڈو کہیں مٹی میں مُجھے
اب میں اشکوں کی قطاروں میں کہاں رہتا ہوں
دیکھ کتنے تری یادوں کے ہیں موتی مُجھ میں
میں تو عاشق ہوں خساروں میں کہاں رہتا ہوں
مستقل اپنا ٹھکانہ بھی نہیں ہے جاویدؔ
اُڑتا پھرتا ہوں میناروں میں کہاں رہتا ہوں
سردارجاویدؔخان
مینڈھر، پونچھ
موبائل نمبر؛ 9419175198
اُن کو اپنا بنا کے دیکھیں گے
پھر، وفا آزما کے دیکھیں گے
وہ، نہ اپنے ہوئے تو کیا شکوہ
غم کو اپنا بناکے دیکھیں گے !
یہ مختصر سی زندگی کیا ہے؟
آج ہستی مٹا کے دیکھیں گے !
قدرتِ برق آزمانے کو
پھر، نشیمن بنا کے دیکھیں گے !
گر یہی ہے رئیسؔ زیست کا درد
دور سے دِل لگا کے دیکھیں گے !
رئیس ؔ صِدّیقی
آکاشوانی و دوردرشن کے سابق آئی بی ایس افسر
موبائل نمبر؛9810141528
ہے غمِ زندگی قیامت میں
کم نہ تھا مر گئے تھے غربت میں
ایک سجدے کی بات تھی لیکن
عمر گزری مری، اقامت میں!
قیدِ غم سے رہا کیا لیکن
اپنی دوری لکھی ضمانت میں
تم کہاں راز تک پہنچ پائے
تم تو بس مبتلا ءتھے عادت میں!
ساٹھ پینسٹھ برس تلک اس کو
زندگی نے رکھا حراست میں!
نیمِ جاں! میں بتا نہیں سکتا
جی رہا ہوں میں کیسی حالت میں
میں تو آدھا ہی مرگیا شاہیؔ
نقص کیا رہ گیا تھا فرقت میں؟
شاہیؔ شہباز
وشہ بگ پلوامہ ،موبائل نمبر؛ 7889899025
وہ جو میری آنکھوں میں آب تھا
مری ہر خطا کا حساب تھا
وہ جو چند پل کا شباب تھا
یوں گزر گیا ہے کہ خواب تھا
یہ جو پتیاں ہیں کتاب میں
کبھی ان میں سِمٹا گلاب تھا
کسی بے وفا سے یہ دوستی
کہ ہر ایک لمحہ عذاب تھا
تھا عجیب عشق کا مدرسہ
نہ کتاب تھی نہ نصاب تھا
نہ سمجھ سکے وہ مگر ثمرؔ
کہ خموشیوں میں جواب تھا
سحرش ثمر
فردوس نگر۔ علی گڑھ