ایک کہانی لکھتا ہوں
یاد پرانی لکھتا ہوں
دنیا بھر کے رنج و غم
اپنی زبانی لکھتا ہوں
لفظ تو سارے کہہ ڈالے
آج معانی لکھتا ہوں
دل کی بنجر دھرتی پر
دھانی دھانی لکھتا ہوں
تیرے بدن کی خوشبو کو
رات کی رانی لکھتا ہوں
سچ تو یہ ہے میں عارفؔ
آگ اور پانی لکھتا ہوں
عرفان عارف
صدر شعبہ اُردو، کامرس کالج جموں
موبائل نمبر؛9682698032
ستم یوں مجھ پر وہ کررہا ہے
یہ من پسند اس کا مشغلہ ہے
قصور اپنا بتا رہا ہے
نسب کا لگتا ہے وہ بھلا ہے
اسے کبھی یا ر مت سمجھنا
قدم پہ حاجت سے گر پڑا ہے
کرو نا !الفت کی بات پھر سے
عناد میں کیا کوئی مزا ہے ؟
کرم کریں یا ستم کریں وہ
غریب دل صبر آزما ہے
نہیں ہے قاتل یہاں تو کوئی
لہو کا دریا یہ کیوں بہا ہے؟
سبھی کے لب پر وفا کے نغمے
بتا کہ پھر کون بے وفا ہے؟
وہ کیسے جھک جائے عاجزی سے
جو بے ثمر اک شجر کھڑا ہے
محال ہے غم چھپا کے جینا
وجود نآزاں الم نما ہے
جبیں نازاں
لکشمی نگر،نئی دہلی
نکلا تری تلاش میں پہنچا کدھر کو میں
کیا دوش دوں نصیب کو یا رہگز کو میں
کوئی چراغ ساتھ نہ اسباب ہم سفر
کیسے کروں گا طے شبِ غم کے سفر کو میں
حاجت طبیب کی نہ دوا کی رہے گی پھر
چُھو لوں جو ایک بار ترے سنگِ در کو میں
دل کو متاعِ غم نے ہی سیراب کر دیا
ٹھکرا چکا ہوں اس لئے لعل و گہر کو میں
ہوتے قدم قدم پہ ہیں اس راہ حادثے
رکھ لوں گا ساتھ ساتھ کسی نوحہ گر کو میں
میرے خلاف آج وہی شخص ہے کھڑا
جس پر لُٹا چکا ہوں کہ جان و جگر کو میں
عارف ؔجو لاکھ ہجر میں یوں ضبط بھی کروں
ممکن نہیں کہ روک سکو ں چشم ِ تر کو میں
جاوید عارفؔ
پہانو شوپیان کشمیر
موبائل نمبر؛7006800298
جب کچھ نہ کرسکے تو یہی کرکے دیکھئے
جینے کی آرزو میں کبھی مر کے دیکھئے
کِس کِس طرف سے آتے ہیں پتّھر خلوص کے
کوئی کُلاہِ ناز کبھی دھر کے دیکھئے
کب تک کرینگے ایک ہی منظر پہ اکتفا
جو نقش ہے اِدھر کا اُدھر کرکے دیکھئے
مُمکن ہے یہ زوال کا منظر ہو آخری
اِس ڈوبتے جزیرے کو جی بھر کے دیکھئے
ہم نے جہاں سے اپنا مصلیٰ اُٹھالیا
سب لوگ معتقد ہیں اِسی در کے دیکھئے
کوئی ہَوا کا جھونکا اُنہیں گُدگدائے کیا
بستی کے لوگ ہوگئے پتھر کے دیکھئے
ستیش وملؔ
آل انڈیو ریڈیو ، سرینگر
موبائل نمبر؛9419059179
کس نے مجھے رُلایا شب دیر تک اے جاناں
دل کا لہو جلایا شب دیر تک اے جاناں
حسرت سے مجھ کو آخر تکتا ہے بام پر سے
اک چاند تھا کہ آیا شب دیر تک اے جاناں
وعدے تمہارے مجھ کو جب جب بھی یاد آئیں
خود کو ہی خود ستایا شب دیر تک اے جاناں
جب جب ہوئی ہے میری دل کی زمین پُرنَم
تو بھی نہ یاد آیا شب دیر تک اے جاناں
کس کس کو میں بتاتا غم میں قرار بھی اب
اک آن بھی نہ بھایا شب دیر تک اے جاناں
تیری گلی سے اُٹھ کر ساگرؔ چلا گیا ہے
پھر لوٹ کر نہ آیا شب دیر تک اے جاناں
ساگر ؔسلام
کوکرناگ، کشمیر
میری رودادِ سِتم میری فغَاں سے پوچھ
سِتم بالائے سِتم ہائے ! آسماں سے پوچھ
یہ فصلِ بہاری، یہ گلوں کا رنگ تو دیکھ
یہ کس نے نچوڑا ہے لہو باغباں سے پوچھ
نہ ہو یوں نَازاں کارِ سامانِ عیش پر
لے ڈوبے گی کب کہاں سیلِ رواں سے پوچھ
میں توپھول ہوں ہر شاخ پہ کھلنا میرا کام
روز کِھلتا ہوں میں، باغِ رواں سے پوچھ
ہے جگر لہو لہو ، شاخِ گل مرجھی مرجھی سی
ہے چَرخ بھی اب اپنا عدو کہکشاں سے پوچھ
ہے لوگ یہاں مجبورومحصورومقہور مشتاقؔ
سازِ زیست رکنے کو ہے نغمہ خواں سے پوچھ
خوشنویس میرمشتاقؔ
ایسو، اننت ناگ
بے ایمانی ہی جب اُسکا اُوڑھنا بچھونا ہے
سخت حالت پہ پھر کیوں آدم کو رونا دھونا ہے
صدق و نیکی کا اب کہاں وہ زمانہ ہے
عصر حاضر میں وہ اقتدار کا کھلونا ہے
کرتا کچھ بھی نہیںاپنے ایماں کی خاطر، تَو
کہتا جاتا ہے پھر آیا کیسا کرونا ہے
وہ تو نازاں ہیں سب اپنی آسودہ حالی پر
مفلسی میںہی اب خود کو ہمیں سَمونا ہے
نقشہ کیسا بھی ہو وقت کا ارے صورتؔ
اپنی ایمانداری کا موتی اس میں پِرونا ہے
صورتؔ سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549
وہ نہیں ہم جو کناروں سے پھسل جاتے ہیں
ہم تو وہ ہیں جو بھنور سے بھی نکل جاتے ہیں
ایک ہم ہیں کہ گزر جاتے ہیں شعلوں پر سے
ایک وہ ہیں کہ جو شبنم سے بھی جل جاتے ہیں
جب کسی گھر میں بہو بن کے دلہن آتی ہے
گھر وہی رہتا ہے ، حالات بدل جاتے ہیں
میرا تجھ سے نہیں ہے کوئی تعلق پھر کیوں
میرے آنسو تیری آنکھوں سے نکل جاتے ہیں
کیوں نہ شرمندہ ہو دشمن تری باتوں سے رفیق
نرم لہجے سے تو پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
رفیق عثمانی
آکولہ ( مہاراشٹر )