پہلے
جب کرن کا ظہور
ہوگیا
کھلبلی سی
مچ گئی دور تک اندھیروں میں
ایک لاغر سی اونٹنی
کے تھنوں سے بھی دودھ کی نہریں
جاری
ہوگئیں
کچھ غلاموں
کی بھی زنجیریں
کھل گئیں
دشت در دشت پھول کھلنے لگے
ریت
مسکرانے لگی
آب زم زم
اور
بھی رواں
ہوگیا
کعبے میں بت لرز گئے
آزروں کے
خواب بھی ٹوٹنے لگے
دشمنان
آدمیت سسک گئی
بند ہونے لگے
ننھی قبروں
کے دہانے
دھوپ سایا نہیں
کرتی تو اور کیا
کرتی
خار خصلت نہیں بدلتے
اپنی تو اور کیا
کرتے
گمرہی کےدبیز اندھیرے
دور ہوتے نہیں تو
اور کیا ہوتا
کیونکہ
اک کرن سے نکل گئے
ماہ تاب آفتاب اتنے کہ
تیرگی کا
دم
گھٹ گیا
اور روشن
ہوگئی
کائنات
اشرف عادل
کشمیر یونیور سٹی ،حضرت بل سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛7780806455