دِل میں ہرغم آنے دو
ایسے اِسے بہلانے دو
اِس دِل میں ہیں غم لاکھوں
پھربھی مُجھے مُسکانے دو
اِس سے حوصلہ بڑھتاہے
دِل پر چوٹیں کھانے دو
وہ باتیں جونہیں اچھی
اُن باتوں کوجانے دو
دِل ہلکاہوجائے گا
مُجھ کواشک بہانے دو
جیسے بھی ہومیری سُنو
غم کی آگ بُجھانے دو
اپنے شعروسُخن سے ہتاشؔ
اِس دُنیا کو جگانے دو
پیارے ہتاش
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
جس طرح ملتا تھا ہم سے اس طرح ملتا نہیں
وہ جو گزرا ہے اِدھر سے اس طرف دیکھا نہیں
جس کی خاطر ہم نے چھوڑا تھا لڑکپن کا سفر
مڑ کے دیکھا غور سے جب وہ بھی اپنا تھا نہیں
سازِ ہستی کی صدا ہے غور سے سن لیں میاں
ہوش والوں کی نظر میں یہ کہیں ملتا نہیں
آپ نے تو مجھ سے پوچھا کیا ہوا ہے تیرا دل
دل کے اندر آج تک تُو نے کبھی جھانکا نہیں
بے گلہ سا ہو گیا ہوں آج تیرے سامنے
تجھ کو لگتا ہوگا شاید ہم سے گلہ تھا نہیں
دیکھنا ہے کس کی جانب رُخ ہَوا موڑے گی اب
دیکھنا ہے کس کا آخر تک دیا بُجھتا نہیں
بات ہم نے آج کر دی مے کشی کی شیخ سے
جام کی جب بات آئی پھر تو کچھ دیکھا نہیں
آج ساگر ؔسے ہوا ہے وہ جدا پر اس طرح
دل گلی میں ہم نے ڈھونڈا پر وہاں وہ تھا نہیں
ساگر سلام
کوکرناگ، کشمیر
مجھ سے ہر بات پہ یوں لڑنا جھگڑنا تیرا
زندگی سے مجھے بیزار نہ کر جائے کہیں
مجھ کو چھیڑو نہ مرا دل بڑا ہی نازک ہے
میرے اندر کا قلم کار نہ مر جائے کہیں
ہر گھڑی سوچتا رہتا ہوں کہاں ہوں کیا ہوں
ایسے حالات میں نا زخم ہی بھر جائے کہیں
میں کلیجہ نہیں رکھ پاؤں گا آگے تیرے
نقشِ افسوس نہ چہرے پہ بکھر جائے کہیں
درد کا آئینہ اور آتشی سانسوں کی چبک
سرد سینے میں آہِ شب نہ اتر جائے کہیں
دقتیں اور بھی آئینگی ذرا دیکھ کے چل
ہڑبڑاہٹ میں نہ منزل سے ہی ڈر جائے کہیں
سوچ بچوں کی طرح بے تُکا ابرار ؔ، عبث
کوئی معصوم نہ الہام سے ڈر جائے کہیں
خالد ابرارؔ
چرار شریف، بڈگام
موبائل نمبر؛8082227011
اس ہجر میں وصل کی راہ نہیں
اب مجھے کسی شے کی چاہ نہیں
تھے جس کی آرزو میں ہم برسوں
اب اس منزل پر میری نگاہ نہیں
بے گناہ مارا جاؤں گا میں ہرسُو
میری بے گناہی کا کوئی گواہ نہیں
آپ کہیں تو جان بھی میری حاضر
مگر منافقوں کی مجھے پرواہ نہیں
سُنی تو ہوگی تو نے بھی داستانِ ابرھیم
عشق میں جلنا تو کوئی گناہ نہیں
بس کہ ہیں اب ہم بھی دربدر
دیوانوں کی ہے کوئی بارگاہ نہیں
اشفاق حیدر
خواب زندگی کے حقیقت ہوئے
تیری دنیا سے جب ہم رخصت ہوئے
پاس تھے ہمارے تو اک خواب تھے
اب جو بچھڑے تو مانو حقیقت ہوئے
تنگ زہنوں کو جب کھول کے رکھ دیا
سب کی خاطر فرشتۂ رحمت ہوئے
جو تھے کوشاں محض برتری کے لئے
آخرش وہ ہی ناکام ثابت ہوئے
خُوب آنسو بہائے تھے صورتؔ جو کل
پی کے مے دیکھ لو کیسے ہم مست ہوئے
صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549
اب نہ کوئی آواز ہے اور نا کوئی فریاد ہے
جو کچھ بھی کرنا ہے تجھے کر لے تُو اَب آزاد ہے
گلشن گلابوں کا جو تھا، مہکی فضائیں تھی جہاں
واں ہر قدم اب بستیاں، میرا بھی گھر آباد ہے
سُرتال بجتے تھے کبھی، سانسوں میںکیا آہنگ تھا
اب ہرطرف بس شور و شر اور ہر قدم اُفتاد ہے
دیواریں گرد آلودہ ہیں اور پھر شکستہ دل مکیں
یہ گنگناہٹ بھی لبوں کی نالۂ بیداد ہے
ساری دنیا دیکھنے آتی ہے جنکو شو ق سے
وہ سب نوادر تو ہمارا ورثۂ اجداد ؔہے
ساری دنیا درد و غم میں ڈوب کر اِٹھلاتی ہے
بستیٔ راشدؔ بھی اب اذیّتوں سےشاد ہے
راشدؔ اشرف
کرالہ پورہ، چاڈورہ
موبائل نمبر؛9622667105