راحت کا وہ باعث تھا مگر، اب وہ کہاں ہے
دلدار مرا رشکِ قمر، اب وہ کہاں ہے
اک سلسلہ سانسوں کا مرا جس سے جُڑا تھا
جو باندھ گیا رختِ سفر، اب وہ کہاں ہے
خوشبو ابھی آتی ہے بدن سے مرے جس کی
وہ جیسے تھا پھولوں کا نگر، اب وہ کہاں ہے
میں جس کے تلے تھک کے سکوں پاتا تھا سو کر
کاٹا ہے کسی نے وہ شجر، اب وہ کہاں ہے
آتا تھا مجھے چین جسے دیکھ کے یا رب!
وہ چل دیا،ڈھونڈوں گا کدھر، اب وہ کہاں ہے
صحرائے جہاں میں مجھے پتھر تو ملے ہیں
لیکن نہ ملا کوئی گہر، اب وہ کہاں ہے
شادابؔ وہ تو تجھ کو چلا چھوڑ کے تنہا
کیوں تھام کے بیٹھا ہے جگر، اب وہ کہاں ہے
شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435
کوئی ساعت سعید ہوتی ہے
زندگی کی نوید ہوتی ہے
پھول کھلتے ہیں دشت و صحرا میں
دل کی گلیوں میں عید ہوتی ہے
کاسۂ دل میں چھید ہوتا ہے
بس خدا سے اُمید ہوتی ہے
چاند جب پانیوں میں اُگتا ہے
وہ گھڑی وجۂ دید ہوتی ہے
درد کی سرحدوں کو چھو جائے
ایسی حالت شدیدہوتی ہے
کہنہ اقدار ساتھ لے کے چلے
وہ روایت جدید ہوتی ہے
طلسم شب سے آشنا کردے
ہاتھ میں وہ کلید ہوتی ہے
فیروزہ مجید
ترال، کشمیر
موبائل نمبر؛9906870781
جو سوال پوچھے جواب دے دو
مجھے تم یارو حساب دے دو
مجھے تو جانا ہے اس سے ملنے
کوئی تو لا کے گلاب دے دو
مجھے بھی پڑھنا ہے جون و غالب
مجھے بھی کوئی کتاب دے دو
تم یاد اپنی بھی ساتھ لینا
وہ خط تو واپس جناب دے دو
یہ آج سنائے گا غزل اپنی
کوئی منتظرؔ کو رباب دے دو
منتظرؔ یاسر
فرصل کولگام کشمیر
موبائل نمبر؛ 9682649522
یہ کیسی ہوا ہے
کہ دم گھٹ رہا ہے
وہ محبوب میرا
حسیں ہے،جدا ہے
میں خود سے ہوں ناراض!
تجھے کیا ہُوا ہے؟
ذرا خود میں جھانکو
خدا ہے ، خدا ہے
یہ دل ہے ؟ نہیں تو!
غموں کا گڑھا ہے!
وہ میرا قبیلہ
عزیزو خفا ہے
میں نے دل دیا ہے
مری کیا سزا ہے؟
ترے پاس میں ہوں
مرے پاس کیا ہے
یہ کمرہ نہیں ہے
میاں یہ خلاء ہے
یہ کیسا تماشا
یہ کیسی فضا ہے
کرو توبہ بسمل
ابھی در کھلا ہے
سید مرتضیٰ بسمل
شانگس اسلام آباد،
موبائل نمبر؛6005901367
خواب زندگی کے حقیقت ہوئے
تری دنیا سے جب ہم رخصت ہوئے
پاس تھے جب وہ اک خواب تھے
اب جو بچھڑے تو حقیقت ہوئے
تنگ ذہنوں کو کھولا جب ہم نے
سبھی کے لئے ہیں رحمت ہوئے
رہے کوشاں جو محض برتری کے لئے
ناکام آخرش وہ ثابت ہوئے
بہائے اَشک پھر کل شام صورتؔ
مئے پی کے جب ہم مست ہوئے
صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549