سارے شکوے گلے بُھلا دیتے
تم جو ہلکا سا مسکرا دیتے
سرد موسم کی دھوپ پہنے ہوئے
بالکونی سے کیا مزہ دیتے
ٹھوکریں منزلوں پہ لے جاتیں
حادثے راستہ دِکھا دیتے
خواب ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں
اس سیاست میں اور کیا دیتے
یوں تو اپنا مکان ہے، کیا ہے؟
تم جو ہوتے تو گھر بنا دیتے
شہر کی بے رُخی اکڑتی ہے
گائوں میں سب گلے لگا دیتے
خوش دیو مینیؔ
پونچھ سٹی، جموں
موبائل نمبر؛8493881999
مرے گھر سے اندھیروں کی نگہبانی نہیں جاتی
کسی صورت مرے دل سے پریشانی نہیں جاتی
تُمہی مجھ پر کوئی احسان کر دو خود چلے آؤ
کہ مُجھ سے خاک صحرا کی تو اب چھانی نہیں جاتی
جہاں ظالم حکمراں ہوں، جہاں انصاف بِکتا ہو
وہاں مظلوم کی فریاد بھی مانی نہیں جاتی
جو لوٹ آؤ تو ممکن ہے کہ پھر یہ شہر بس جائے
گئے ہو چھوڑ کر جب سے بیابانی نہیں جاتی
غُبارِ زندگی میں اِسقدر دُھندلا گئیں آنکھیں
کہ مُجھ سے اب کوئی تصویر پہچانی نہیں جاتی
سرِ اجلاس تیرے حق میں بولوں بھی تو کیا حاصل
یہاں اہلِ جنوں کی بات بھی مانی نہیں جاتی
چلے جاؤ گے آخر چھوڑ کر جاویدؔ مسند کو
کسی کے ساتھ دُنیا سے تو سُلطانی نہیں جاتی
سردارجاویدخان
پتہ، مینڈھر، پونچھ، جموں و کشمیر
موبائل نمبر؛9419175198
ہم سے روٹھے سے ہیں احباب ہمارے سارے
اُلٹے بہنے لگے اب پیار کے دھارے سارے
مشتری، زہرہ، عطارد سے ملے نام جنہیں
آسماں پر وہ چمکتے ہیں ستارے سارے
درد کے طور کبھی آہ کبھی اشکوں کے طور
میں نے اے عشق ترے قرض اُتارے سارے
کون سی چُوک ہوئی اس نے ہے کیا داؤں چلا
کس طرح جیتے ہوئے معرکے ہارے سارے
اب کسی شخص کے چہرے پہ نہیں شادابی
کیا مری طرح ہیں حالات کے مارے سارے
ہونٹ ساکت رہے اور ہوگئے عہد و پیماں
کتنے پُر معنٰی ہیں نظروں کے اشارے سارے
ہوگئی درد کا عنوان کتابِ ہستی
اس ہی موضوع سے پُر صفحے ہیں سارے سارے
ہائے رے مفلسی پھر بھی نہ وہ پہچانے ذکیؔ
میں نے جتنے بھی تعارف تھے گزارے سارے
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج،بارہ بنکی،یوپی
موبائل نمبر؛7007368108
خار سے دامن سجانا چاہئے
رنج میں بھی مسکرانا چاہئے
زندگی بھر بس یہی سوچا کئے
اب کسی سے دل لگانا چاہئے
یہ جہاں دیکھا تو بس سوچا کئے
کیا کسی سے دل لگانا چاہئے؟
بجلیوں میں تاب کیا جو گر سکیں
آشیانہ راس آنا چاہئے
عشق کے ہوتے رہے ہیں امتحاں
حُسن کو بھی آزمانا چاہئے
زندگی بخشی ہے جس نے اے رئیسؔ
اس کے آگے سر جھکانا چاہئے
رئیس ؔ صِدّیقی
سابق آئی بی ایس افسر آکاشوانی و دوردرشن
موبائل نمبر؛9810141528
گرا سکیں نہ کوئی پیڑ میرے گاؤں کا
’’غرور ٹوٹ گیا سر پھری ہواؤں کا ‘‘
ہے سر پہ سایہ مرے ماں تری دعاؤں کا
ہو کیسے مجھ پہ اثر پھر بھلا وباؤں کا
نہ ہو سکے گا اثر اس پہ کچھ دواؤں کا
مریضِ عشق کو اب کام ہے دعاؤں کا
چھڑی ہوئی تھی بحث رند اور ساقی میں
تمام رات چلا ذکر، پارساؤں کا
نظر چرانے لگے ہیں جو حادثے مجھ سے
یہ سب اثر ہے مری ماں تری دعاؤں کا
سفینہ ڈوبتے دیکھا ہے میں نے ساحل پر
کروں میں کیسے بھروسہ یہ ناخداوں کا
وفا کے نام سے نفرت سی ہو گئی ہے رفیق
کرے نہ ذکر کوئی ہم سے اب وفاؤں کا
رفیق عثمانی
آکولہ، مہاراشٹرا
وفادار ، وفا شعار ہوں میں
دوستوں کا اعتبار ہوں میں
سنا ہے سخن ساز،سخن تراش ہے وہ
ہے عجب کیا کہ طرزِ گفتار ہوں میں
غموں سے نِبھاہ کرنا سیکھ لینگے
ڈٹ کہ رہنا مانندِ کوہسار ہوں میں
ہے ظرف ہی کیا کہ مجھ میں سما جائے
وہ سکوتِ شب تو آبشار ہوں میں
خود کو محصور کر بیٹھا ہوں
ایسا جینا کہ بیزار ہوں میں
میں اپنی ذات میں گُم رہتا ہوں
کبھی جیت ، کبھی ہار ہوں میں
کیا ہو گا جب سابق ہو روزِ حساب
ابھی سے گناہوں پہ شرمسار ہوں میں
وقت نے پھینک دیا مجھ کو کہاں لاکر
انہیں معلوم کیا کہ شاہکار ہوں میں
آجائے مشتاقؔ گرکوئی مسیحائی کو
مریضِ عشق کا بیمار ہوں میں
خوشنویس میر مشتاقؔ
ایسو اننت ناگ[email protected]
یہ جدائی کا درد ہے ٹھہر نہیں جائیگا
بھنور جیسا دل کا زخم بھر نہیں پائیگا
یہ سناٹا دل کا شور دبا نہیں پائیگا
خاموش ہونٹوں کا تالا کہیں ٹوٹ جائیگا
منزل کے راستے پہ ایسا بکھرا جسم
کتنا بھی سمیٹو مدفن میں پورا نہیں آئیگا
آنے کا اُس نے کیا ہے جو وعدہ
خالی وعدے کو وہ کب تک نبھائیگا
سجا کے بیٹھا تھا میں یہ دل کا گلستاں
پتا کہاں تھا تو اس کو ایسے جلائیگا
یقین ہے مجھے تُو واپس نہیں آئیگا
پھر بھی تو مجھے سدا منتظر پائیگا
راشد وہ اس خودسر دل کو نہیں جانتے ہیں
یہ دل اپنے اس اُجڑے چمن کو پھر سے سجائیگا
راشد اشرف
کرالہ پورہ چاڈورہ، کشمیر،موبائل نمبر؛9622667105