پیارے نبیؐ کے پیارے نواسے ؓ حسنین کریمینؓ

ڈاکٹر آسی خرم

اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے، لیکن سانحۂ کربلا کے بعد جب بھی محرم الحرام کا نام آتا ہے تو فوراً تذکرہ شہدائے کربلاؓ اور حضرت امام حسینؓ کا پاکیزہ نام دل و دماغ میں گونجنے لگتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت نے ضمیروں کو بیدار کیا، دلوں کو بدلا، ذہنی انقلاب کی راہیں ہموار کیں اور انسانی اقدار کی اہمیت کو متعارف کرایا۔ کوئی بھی بندۂ مومن ایسا نہیں جو واقعہ کر بلا کو سن کرآبدیدہ نہ ہو ۔آپؓ کی قربانیوں کی بدولت آج پرچمِ اسلام سربلند ہے۔
حضرت امام حسینؓ نہایت عبادت گزار تھے۔ آپؓ کے طرزِ زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کردار نمایاں تھا۔ آپؓ نے جو کچھ بھی کیا، وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا۔ آپؓ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بادشاہوں کی بدترین صفات یہ ہیں کہ دشمنوں سے ڈریں، بے سہارا اور ناداروں پر رحم نہ کریں اور عطا و بخشش کے وقت بخل سے کام لیں۔
حدیث شریف میں ہے، سرور کائنات ؐ نے فرمایا : حضرت ہارونؑ نے اپنے بیٹوں کا نام شّبروشبّیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کانام ان ہی کے نام پر حسن اور حُسین رکھا۔ اسی لیے حسنین کریمین ؓکو شبّر و شبّیرکے نام سے بھی یا د کیا جاتا ہے، سریانی زبان میں شبّروشبّیر اور عربی زبان میں حسن وحسین دونوں کے معنیٰ ایک ہیں۔ حدیث میں ہے کہ حسنؓ اور حُسینؓ جنتی ناموں میں سے دونام ہیں۔ رسول اللہؐ نے حضرات حسنین کریمینؓ کے بارے میں گواہی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’حسنؓ اور حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘(ابن ماجہ)آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’حسنؓ اور حسینؓ دنیا کے میرے دو پھول ہیں۔‘‘(مشکوٰۃ)حضرت علی ؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت حسنؓ اورحسینؓ پید ا ہوئے تونبی ا کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلا کر فرمایا: مجھے ان کے نام تبد یل کر نے کا حکم د یا گیا ہے، میں نے عر ض کیا اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں، پس آپؐ نے ان کے نام حسنؓ و حسینؓ رکھے۔ (مسند ا حمد بن حنبل)
حضرت یعلیٰ بن مرہؓ سے روایت ہے ، کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ار شا د فرمایا: حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں ۔(ترمذی شریف)حضرت سلمان فارسی ؓسے روایت ہے، رسول اکرم ؐ نے فرمایا: میں نے ان دونوں یعنی حسنؓ و حسینؓ کے نام ہارون علیہ السلا م کے بیٹوں شبر اور شبیر کے نام پر رکھے ہیں۔(ابن ابی شیبہ)
حضرت سیدہ فاطمہؓ فرماتی ہیں، ایک روز حضورؐ میرے پا س تشریف لائے اور فرمایا، میرے بیٹے کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا، علی ؓ انہیں سا تھ لے کرگئے ہیں، نبی اکرمؐ ا ن کی تلاش میں متوجہ ہوئے تو انہیں پانی کی جگہ پر کھیلتے ہو ئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے علیؓ، خیال رکھنا، میر ے بیٹو ں کو گر می شروع ہونے سے پہلے واپس لے آنا۔ ( ترمذی شریف)حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں دربار رسالتؐ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسینؓ کو اپنی پشت مبارک پر سوار کر رکھا ہے اور آپؐ گھٹنوں کے بل تشریف لے جا رہے ہیں، جب میں نے یہ شان دیکھی تو عرض کیا۔ ’’اے ابوعبداللہ، آپ نے سواری تو بڑی اچھی پائی ہے۔‘‘ تو رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’عمرؓ، سوار بھی تو بہت اچھا ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمؐ مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا:چھوٹا بچہ کہاں ہے ؟ حضرت امام حسین ؓ دوڑتے ہو ئے آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں بیٹھ گئے اوراپنی انگلیاں آپؐ کی داڑھی مبارک میں داخل کردیں۔ حضورؐنے ان کا بوسہ لیا، پھر فرمایا:’’اے ﷲ، میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور اس سے بھی محبت فرماکہ جو اس سے محبت کرے۔‘‘(نورالابصار)
حضرت ابو بکر صدیق ؓ،سیدنا حضرت عمر فاروقؓ اور سیدنا حضرت عثمان ذوالنورینؓ سمیت تمام صحابہ کرام ؓ کو بھی حسنین کریمین ؓ اور خاندانِ نبوت سے بہت زیادہ عقیدت و محبت اور اُلفت تھی۔ حضرت حسین ؓ جب بچپن میں پہلی مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے سامنے آئے تو آپ نے بے اختیار عقیدت و محبت میں فرمایا ’’بیٹا علیؓ کا ہے، مشابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہے۔‘‘
حضرت امام حسینؓ کی ولادت کی خوش خبری سن کر نبی کریمؐ حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے، نومولود کے کان میں اذان کہی، ولادت کے ساتویں دن حضرت علیؓ نے آپ کا نام حرب تجویز فرمایا، جسے بعد میں حضور اکرمؐ نے تبدیل کرکے حسینؓ رکھ دیا۔ حضور اکرمؐ کی محبت کا عالم تو دیکھیے، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں خطبہ فرمارہے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ نیا لباس زیب تن کیے مسجد میں داخل ہوئے، حضرت امام حسین ؓ کا پائوں کُرتے میں الجھ گیا، جس کی وجہ سے آپ گر پڑے۔ ذرا تصور کیجیے۔ کائنات کی معتبر ہستی فخرِ کائنات نبی کریمؐ اپنا خطبہ روک کر آپ کے پاس آئے اٹھایا ، آپ کو اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا:’’حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں۔‘‘
کربلا میں حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے دین کو جس انداز میں بچایا۔اسلامی تاریخ میں وہ ایک روشن مثال ہے۔
عزم واستقلال :امام حسینؓ کامقدس قافلہ’’ قصربنی مقاتل ‘‘کے مقام پر پہنچا تو آپ نے اپنے جاں نثاروں کووہاں خیمہ زن ہونے کاحکم دیا، رات دیر تک مناجات اورعبادت کے بعد ابھی امام حسینؓ کی آنکھ لگی ہی تھی کہ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُونْ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِین کہتے ہوئے بیدار ہوگئے، آپ کے صاحبزادے سیدنا زین العابدینؓ نے پوچھا ابا جان! آپ نے پہلے اِنَّالِلّٰہ اور پھراَلْحَمْدُ لِلّٰہ کیوں پڑھا؟ فرمایا:’’میری آنکھ لگ گئی تھی کہ میں نے خواب میں ایک سوار کو دیکھا، وہ کہہ رہا تھا کہ قوم جارہی ہے اور موت اُس کی طرف بڑھ رہی ہے، یہ خواب ہماری شہادت کی خبر ہے۔ شیر دل صاحبزادے نے یہ سن کر کہا: اباجان! اللہ آپ کوبُرے وقت سے بچائے، کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا:اللہ کی قسم، ہم حق پر ہیں، عرض کیا:جب حق کی راہ میں موت ہے توکوئی پروا نہیں، فرمایا: اللہ میری جانب سے تمہیں اس عزم واستقلال کی جزائے خیردے۔(کنزالعمال)
عبادت اور سخاوت کے عظیم پیکر :امام حسینؓ کی ذاتِ گرامی فضائلِ اخلاق کا مجموعہ تھی، آپ بہت بڑے عبادت گزار، روزہ دار، بکثرت حج کرنے و الے تھے، پاپیادہ متعدد مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت پائی، ایک مرتبہ ایک فقیر مدینے کی گلیوں میں پھرتا پھراتا آپ کے درِدولت پرآپہنچا۔ اس گھڑی آپ محوِ نماز تھے، سائل کی پکار سنتے ہی نماز ختم کرکے باہر آئے، اسی وقت خادم سے پوچھا، ہمارے اخراجات میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے؟ خادم نے عرض کیا، آپ نے دوسو درہم اہلِ بیتؓ میں تقسیم کے لیے دیے تھے، وہ ابھی تقسیم نہیں کیے گئے ہیں۔ فرمایا، وہ سب درہم لے آئو، اہل بیت ؓسے زیادہ ایک حق دار آگیا ہے، چناںچہ دو سو درہم کی تھیلی اس کے حوالے کردی، ساتھ ہی معذرت کی کہ اس وقت ہمارے ہاتھ خالی ہیں، اس لیے اس سے زیادہ خدمت سے قاصر ہیں۔(تاریخ ابن عساکر)