پتھر کے آنسو کہانی

مشتاق مہدی
مغرب کی ہوائیں تیز اور طوفانی تھیں۔
ان ہواوئں کا زورشدید تھا۔پتے کانپ رہے تھے۔درخت اُکھڑ رہے تھے۔مکانوں کی چھتیں اُڑ رہی تھیں۔یکایک ہی پہاڑ کی اونچی چوٹی کا پتھر ان ہوائوں کی زد میں آگیا اپنی جگہ سے ہِل گیا۔
پھر سنبھل نہ سکا اور دوسرے ہی لمحے نیچے پستیوں کی جانب ڈوبتا چلا گیا۔۔۔۔نیچے کھائی نہ تھی ۔شہر کی ایک بارونق بھری پُری سڑک تھی۔پتھر لڑھکتا ہوا اسی سڑک پر آ پہنچا۔
یہ پتھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔راہ چلتے لوگوں کے لئے ایک تماشا بن گیا۔لا تعداد ٹھوکروں نے اِس پتھر کے نوکدارحُلیے کو بگاڑ کے رکھ دیا تھا۔یہ پتھر ایک ہیبت ناک شکل میں ڈھل چکا تھا۔جو بھی اِس پتھر کو نظر بھردیکھتا۔۔۔اُس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔
راہ چلتے ہوئے جب بھی یہ پتھر میرے چمکیلے بوٹ کی نوک کے سامنے آ جاتاتو ایک لمحہ کے لئےمیں سوچتا۔۔۔یہ پتھر کیوں یہاں پڑا ہے۔۔۔۔۔۔؟دوسرے ہی لمحے سوال ذہن کے تاریک گوشے میںڈوب جاتا کیونکہ کھڑی چمنیوں کے منہ سے نکلتا ہوا زہریلا دھواں مجھے اپنی جانب بُلا رہا ہوتا تھا۔
میں کسی ان دیکھی قوت کے زیر اثر سنگ سیاہ کی عالیشان عمارت کی طرف تیز قدموں سے دوڑتانظرآتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روز آتا جاتا تھا۔شام کو سڑک سے پتھر اٹھاکر فٹ پاتھ پر رکھ دیتا تھاکہ کسی اور راہی کے لئے مصیبت نہ بنے۔کسی کے قیمتی جوتے کو زخمی نہ کرے۔لیکن اگلے دن اِس پتھر کوپھر سڑک کے بیچوںبیچ پڑا ہوا پاتا تھا۔اب یہ روز کا قصہ تھا۔میں نے اُس کے متعلق سوچنا چھوڑ دیا۔لیکن ۔۔۔۔۔۔ایک روز میرے سنگتراش دوست کی نظر اُس پر پڑیتو وہ چونک سا اٹھا۔غور سے اِس پتھر کو دیکھنے لگا۔جیسے پتھر نہ ہو کوئی قیمتی ہیرا ہو۔اس کے چہرے پر مسرت کی کرنیں نمودارہوگئیں۔ خاموشی سے پتھر اٹھاکر گھر لے گیا۔
کچھ دنوں کے بعداُس کے گھر جاکر دیکھا۔
پتھر کے حلیے میں موہوم سی تبدیلی آگئی تھی۔ایک دلکشی جھلکنے لگی تھی۔سنگتراش کی انگلیاں واقعی کمال دکھارہی تھیں۔وہ اپنے کام میں منہمک تھا ۔میری آہٹ پر گھوم کے دیکھا۔
میں نے پوچھ ہی لیا۔’’ تم نے اِس کے لئے بھی کوئی خاص آکار سوچا ہے ؟ ‘‘
’’ ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو سب کو مبہوت کرے۔‘‘اُس نے بڑے اعتماد سے کہا ۔’’انسانوں کو اور پتھروں کو بھی ‘‘
اور اُسی دم اُس کے کانوں میں ایک میٹھی ہنسی گُونجی۔اُس نے سر اٹھا کرکمرے کے وسط میں پڑی اُس حسین مورتی کی طرف دیکھا جو اُس نے برسوں پہلے بنائی تھی۔جو اُسے جان سے پیاری تھی۔
وہ مسکرا دیا۔عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
وقت اور حالات کاایک عجیب سا موڑ تھا۔ایک ایسے ہی پتھر کا مدت سے آرزو مند تھا۔
سنگتراش اور پتھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالق اور مخلوق۔۔۔۔۔۔۔۔انسان اور شیطان۔شیطان انسان سے زیادہ قوی اور ضدی ہے کہ آج تک اپنی فطرت نہ بدلی۔اپنے مقصد اور مؤقِف پر ڈٹا رہا۔
سنگتراش نے راتوں کی نیند اور دن کا چین اس پتھر پر لُٹادیا۔اُس کی بھر پور محنت ،لگن اور فن کارانہ انگلیوں نے بے جان پتھر پر ایک نیا اور اچھوتا نقش چڑھادیا تھا۔پتھر میں جان سی آگئی تھی۔پتھر اب بولتا ہوا نظر آرہا تھا۔اُس دن سنگتراش بے حد خوش تھا کہ اُس کی ریاضت اور محنت رنگ لائی تھی۔
اُس کی تخلیق مکمل ہوچکی تھی۔اُسے اپنی عظمتوں کا لوہا منوانا تھا۔اِس شاہکار مجسمے کو منظر عام پر لاکر مداحوں سے داد حاصل کرنی تھی۔وہ اِس مجسمے کو اُسی سڑک پر لے آیاجہاں اُس نے ایک بے ہیت پتھر کو اٹھایا تھا۔
سڑک پر لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ان میں سنگتراش کے مداح بھی تھے اور فن کے شیدائی بھی۔۔۔ایک سوداگر سے سودا طے ہوا۔سنگتراش نے خوش ہوکر یہ حسین مجسمہ اُس کے حوالہ کردیا۔لیکن دوسرے ہی پل اُس کے سینے میں بائیں طرف درد کی ایک ٹیس ابھر آئی۔اُس نے اپنے اندر ایک خالی پن سا محسوس کیا۔
وہ کچھ بجھا بجھا اور تھکا ہوا سا گھر چلا آیا۔اپنے کمرے میں آکر یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ جس مورتی کے ہونٹوں پراُس نے خوبصورت شاداب مسکراہٹ سجائی تھی۔
کچھ اداس سی نظر آرہی ہے ۔۔۔اور آنکھوں میں پانی کے کچھ قطرے چھلکنے کو بے تاب ۔۔۔۔!
���
مدینہ کالنی۔مَلہ باغ،سرینگر