والدین کی اطاعت ۔دین و دُنیا کی بھلائی ہے فکر وادراک

نعیم الحق

دنیا کی ہر قوم میں عقل ِسلیم رکھنے والا ہر شخص اپنے والدین کےادب و احترام اور اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کاقائل ہے، پوری دنیا کے معاشرے میں ماں کے بعد باپ کا رشتہ سب سے زیادہ قابل تعظیم سمجھا جاتا ہے۔قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر والدین کے ساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے،جہاںماںکو جنت وہاں باپ کو جنت کا دروازہ کہا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی منشا کے مطابق آدمؑ اور حواؑکی جوڑی بنائی اور پھر اُن کی اولاد کے لئے رشتے بھی استوار کئے۔کسی کو بیٹا اور کسی کو بیٹی کی نسبت دی،کسی کوبھائی اور کسی کو بہن بنایا،پھر کسی کو باپ کا درجہ دیا اور کسی کو ماں کا شرف بخشا۔اورپھراولاد ِ آدم و حواؑ کے لئے دوسرے دیگر رشتوں کی نسبت بھی بتادی ،اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر رشتے کے لئے حقوق بھی مخصوص رکھے اور اُن پر عمل پیرا رہنے کی تلقین بھی کردی۔مگر افسوس ! آج کے اس جدید دور میں مسلم معاشرے کی نوجوان نسل کا بیشتر حصہ اللہ تعالیٰ کے طے کردہ رشتوں اور رشتوں کے حقوق کی ادائیگی سے کوسوں دورہو چلا جارہا ہے۔ نہ ماں کی عظمت کو سمجھنےکی کوئی فکر ہے اور نہ ہی باپ کے رُتبے کی قدر کرنے کا کوئی احساس ۔ بہن کی عزت کا پاس نہ بھائی کے پیار کا لحاظ رہ گیا ہے،جبکہ باقی رشتوں کا اب خدا ہی حافظ ہے۔آج کے اس ماڈرن معاشرے میںتواب ماں باپ کو بوجھ سمجھ کراُنہیں بے سہارا چھوڑ اجارہا ہےاور اپنی الگ دُنیا بسانے کا رُجحان فروغ پارہا ہے،جوکہ ایک لمحہ ٔ فکریہ ہے۔
ذرا غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر آخر الزماںؐپر الہامات کاجو مجموعہ قرآن ِ مجید کی شکل میں بھیجا ہے ،اُسی قرآن کے قوانین نے ہمیںحقوق ِ اللہ اورحقوق العبادپورے طور سے بتائے ہیں،حقوق العباد میںسب سے بڑا حق ماں باپ کی اطاعت اور فرمان برداری ہے۔لہٰذا ہم پر لازم ہےکہ اپنے ماں باپ کے حقوق کا ہرسطح پر لحاظ رکھیں،تاکہ دُنیا کے ساتھ ساتھ ہم اپنی آخرت کو بھی کامیاب بنائیں۔ہاں! ماں باپ کی قدر اُن سے پوچھئے،جو والدین کے ایثار و محبت ، اُن کی دستِ گیری اور اُن کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگئے ہیں۔ وہ اولاد واقعی خوش نصیب ہیں، جن کے والدین حیات ہیں، یہ اُن کے لئے موقعۂ غنیمت ہے کہ اپنے والدین کی خدمت کرکے اپنی دنیا بنائیں اور آخرت بھی سنواریں۔
مجھے بھی میری ماں نے 9مہینے پیٹ میں رکھ کرمختلف تکالیف سے گذر کےجنم دیا ہےاور میں وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ جب میرا جنم ہوا ہوگا تو ہر والدین کی طرح میرے ماں باپ کی بھی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا ہوگا۔اور پھر میرے بچپن کے ناز نخرےاُٹھاکرجس شفقت ، مشقت ،لاڈاور پیارسے میرے والدین مجھےپال پوس رہے تھے،اُسے میں کیسے بھول پائوں گا۔مگر ،آہ! میری بدقسمتی!! میرے والد صاحب اپنی جواںعمری میں ہی میری جواں سال ماں اور مجھ کمسن بیٹے کو داغ ِ مفارقت دے کر اللہ کو پیارے ہوگئے اور میری پیاری ماں نے اپنے تمام خوابوں، ارمانوں اور آرزوئوںکا خون کرکے ساری زندگی اپنی معصوم اولاد(میں اور میرےدوبھائی) کیلئے وقف کردی۔اپنے رفیق و شفیق والدین کا حق میں کیسے ادا کروں،یہ بات ہر لمحہ میری فکر و فہم کو جھنجوڑتی رہتی ہے۔تاہم ہر دَم میری یہی کوشش رہتی ہے کہ ہر حال میںاپنی ماں کو خوش رکھوں ،اس لئے دن رات محنت کرتا ہوں تاکہ وہ مجھ سے راضی رہےاور اس بات کو بخوبی سمجھتا ہوںکہ جب ماں مجھ سےراضی ہوگی تو میرا اللہ بھی مجھے راضی رہے گا ،اِنشاء اللہ۔
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دُعا بھی ساتھ چلتی ہے
میری ماں نے اپنی جواں عمری میں نہ جانے کتنے مصائب و تکالیف کا سامنا کیااور مجھے جواں بنایا،اس کا مجھے آج احساس ہورہا ہے مگرمیری ماں نے کبھی ہمت نہ ہاری۔ ہمیشہ مجھ سےیہی کہتی رہتی کہ اللہ سب سے بڑا مہربان ہے، ہمارا پالن ہار ہے اور وہی ہماری ہر مشکل گھڑی میںہمارا دستگیر ہے۔حق بھی یہی ہےاور ایسا ہی ہورہا ہے، میں اللہ پاک کا شکر گزار ہوں کہ وہ ہر لمحہ ہمارے ساتھ ہے اور اِنشاء اللہ زندگی بھر ہمارے ساتھ رہے گا۔بلا شبہ ماں ایک عظیم نعمت ہے،اللہ ہر کسی کی ماں کو سلامت رکھے۔مجھے یاد ہے ،ایک دِن نہ جانے کس بات پر میں رو رہا تھا تومجھے دِلاسہ دیتے دیتے میری ماں بھی زاروقطار سےرونے لگی اورنہایت درد بھرے الفاظ میں، محبت اور شفقت سے کہہ رہی تھی کہ بیٹا چُپ ہوجائو ،رونا بند کردو، صبر سے کام لو ،سب ٹھیک ہوجائے گا ۔مگر نہ معلوم ماں کے اِن درد بھرے الفاظ سےمیں کیوں بے قابو ہوجاتا اور پہلے سے زیادہ چِلا چِلا کر رونے لگتا تھا، اِسی دوران میری ماں نے میرے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا : بیٹا !ہمت رکھو ، صبر کرو۔کیا تم حضرت محمدؐ کے اُمتی نہیں ہو،جنہوں نے ہر مصیبت اور ہر مشکل میں صبر کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔کیا تم ایک بہادر باپ کی نیک اولاد نہیں ہو ،جس نے ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرکے شہادت حاصل کی۔کیا تمہیںآگے بڑھ کر طوفانوں کا مقابلہ نہیں کرنا ہے؟کیا فضائوں میںاُڑنا نہیں ہے؟ماں کی یہ باتیں سُن کر نہ معلوم کیوں میں نے یکدم رونا بند کیا اور ماں سے چمٹ گیا ۔ آج جب یہ باتیں یاد آتی ہیں توماضی کا سارا منظر سامنے آتا ہےاور بفضل ِ رب ّ العزت اس وقت میں جواں ہوںاور پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھنے کی راہوں پر گامزن ہوں۔شائدیہ سب میری ماں کی اُن باتوں اوردُعائوں کا ہی نتیجہ ہے کہ میں ہر مشکل کام باآسانی نمٹ لیتا ہوں۔
کون کہتا ہے کہ بارِ زندگی ماں باپ ہیں
میں کہتا ہوں کہ ہر گھر کی خوشی ماں باپ ہیں
اب بات میرے والدـ صاحب کی ہے ،تو میں ہر باہوش نوجوان سے کہنا چاہوں گا کہ جن کے پاس ماں باپ جیسی عظیم دولت موجود ہے،وہ اس دولت کی ہر ممکن قدر کریں ،جب اِن دونوں میں سے کوئی اس دُنیائے فانی سے رخصت ہوجاتا ہے ،تب اولاد کو ان کی شدت سے کمی محسوس ہوتی ہے۔دوستو!میں بخوبی جانتا ہوں کہ جب والد کا سایہ اُٹھ جاتا ہے توانسان یتیم کہلاکر بے بس اور بے سہارا ہوجاتاہے۔مجھے یاد ہےجب بچپن میں اپنے والد محترم کے ساتھ،ہنستا کھیلتا ،کودتا،لڑتا،جھکڑتا،روٹھتا،تووہ مجھےمنانے کے لئےاپنے کاندھوں پر بِٹھاکرگھماتا رہتا تھا۔آج اُن کے نہ ہونے سے میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کررہا ہوں۔باپ کا سایہ سَر سے اُٹھے،تو اپنے قریبی رشتہ دار ہی اُس کا سایہ ہوتے ہیں جواُس کا دُکھ درد سمجھ پاتے ہیں اور اُس کا غم بانٹتے ہیں،لیکن موجودہ زمانے میں اب ایسے درد مندرشتہ دار نایاب ہوتے جارہے ہیں ، جائزہ لیا جائےتو ایسے رشتہ دار اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔جدید دور کی بے ہنگم مصروفیات میں ہر کوئی فرد مختلف پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ لہٰذااگر کوئی ہمنوا ہے تو وہ صرف اللہ پاک ہے اور اُس کے بعد اپنے والدین ۔
بے شک دنیا میں ’ماں ‘کا رُتبہ سب سے بڑا ہے، ماں کے قدموں تلے جنت ہے، مگر یہ بات ہرگز مت بھولنا ،جو حدیث سے ثابت ہے کہ باپ کو جنت کا دروازہ کہا گیا ہے۔اس کی اطاعت دخول جنت اور ااس کی نافرمانی دخول جہنم کا سبب ہےاور جنت میں داخلے کے لئے ضروری ہے کہ دروازے سے گزرا جائے۔یا د رہے باپ کی خمیر محبت، شفقت، احساس، خلوص، ایثار، قربانی، عنایت، حوصلہ اور ہمت سے بنا جنت کا دروازہ اولاد کا بہترین سرمایہ ہے۔ اگر آپ کے پاس یہ دروازہ موجود ہے تو آپ بہت خوش قسمت ہیں ،اُن کی قدر کریں، اُن کی دعائیں لیں، اُن سے پیار کریں، انہیں خوش رکھیں۔ اگر آپ جوان ہیں اور آپ کے والد بھی توانا اور صحت مند ہیںتو ابھی اُنہیں آپ کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ لیکن آج ہی عہد کرلیں کہ جب وہ کمزور اور ناتواں ہوجائیںتو آپ اُن کی قربانیوں کی قدر کریں گے ، اُن کا کہنا مانیںگےاور اُن کی فرمان برداری کریں گے۔اور اس وقت وہ خواب جو آپ کا والد آپ کے مستقبل کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں، انہیں قابل ِتعبیر بنانے کی پوری پوری کوشش کریںاور یہ بات ذہن میں رکھیںکہ باپ ایسا چاہنے والا رشتہ ہے کہ اولاد کو خود سے آگے بڑھتا دیکھ کر ہمیشہ خوش ہوتا ہے، باپ ہی آباؤ اجداد کی بنیاد ہےاور اولاد کا نسب والدسے ہی چلتا ہے۔ اس لئے یہ بات سمجھ لیںکہ؎
والدکے ہوتےاولاد خوش بخت ہوتے ہیں
ہرباپ ہر گھر کے سایہ داردرخت ہوتے ہیں
دوستو! ہجری سن کا اول مہینہ محرم الحرام رواں دواں ہے۔اسلامی تاریخ میں محرم کی دس تاریخ بہت اہم ہے،اس دن بہت سے اہم اور ناقابل فراموش واقعات رونما ہوئےہیں،ہمارے پیارے نبی ؐ کے پیارے نواسے حضرت امام حُسین،اُن کے اہل ِ خانہ اور دوسرے قرابت داروں کی شہادت گراں قدر تاریخ ساز واقعہ ہے۔جس پر فطری طور ہر مسلمان غم زدہ ہوتا ہے،روتا ہے اور آنسو بہاتا ہے۔آج سے قریباً27 سال قبل محرم الحرام کی 8تاریخ کو میرے والد صاحب ،بشیر احمد لون نے بھی شہادت پائی ،(اللہ اُنہیں مغفرت کرے اور اُن سے راضی رہے)جن کی یاد میں، میں بھی غم زدہ ہوجاتا ہوںاور شدت کے ساتھ اُن کی اہمیت محسو س کرتا ہوں ۔؎
عزیز تر مجھے رکھتا تھا وہ رگ وجان سے
با خُدا ، میرا باپ کم نہیں تھا میری ماں سے
شائدباپ کی اہمیت اولاد کی سمجھ میں تب آتی ہے جب وہ اِس دُنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔واقعی باپ ایک مکان کےاُس چھت کی مانند ہوتا ہے،جس سے گھر کے مکین محفوظ رہتے ہیں۔گویا وہ ایسا محافظ ہوتا ہے،جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں،اُس کا ایثار ہے کہ اپنی ضروریات کے باوجود بھی اولاد کی چاہتوں کو ترجیح دیتا ہے۔اس لئےباپ جیسا بھی ہو ،باپ ہی ہوتا ہے۔اپنے باپ کی عزت،اطاعت اور فرمان برداری کیجئے،اسی میں آپ کے لئے دین و دُنیا کی بھلائی ہے۔
)رابطہ۔9797970528)
[email protected]