میدان ِکربلا اور شہادت ِحسینؓ  | حُسینیت زندہ ہے یزیدیت مرگئی عظمت ِ شہادت

جاوید اختر بھارتی
سانحہ کربلا کبھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔ایک طرف نواسہ رسول ؐامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر قلم کرکے اور آلِ رسولؐ پر ظلم ڈھاکر دنیا میں دھاگ جمانے کا خواب دیکھنے والوں کا گروہ تھا، شریعت کو اپنی طبیعت کے مطابق ڈھالنے والوں کا گروہ تھا، جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ ِوسلم کا کلمہ پڑھتے تھے ،اسی نبیؐ کے نواسے کے خون کے پیاسوں کا گروہ تھا اور اس گروہ میں ایسا چہرہ بھی موجود تھا کہ جس کا باپ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آنے والے تیروں کو اپنے سینوں پر روکا کرتا تھا اور میدان کربلا میں اُسی باپ کا بیٹا ابن سعد حضرت امام حسینؓ کے خون کا پیاسا تھا ،وہ دنیا کے لالچ میں اندھا ہوگیا، اسے حکومت اور عہدہ چاہئے تھا، اُس کی آنکھوں پر پٹی بندھ چکی تھی ۔چنانچہ اُس نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبے سے منہ موڑ لیا تھا اور نواسہ رسولؐ سے بغاوت کربیٹھا۔ یزید کی یہ ظالمانہ حرکت صرف نواسۂ رسولؐ سے ہی نہیں بلکہ آلِ رسولؐ سے بھی بغاوت ہے اور آلِ ابراہیم سے بھی بغاوت ہے۔

دوسری طرف سر کٹا کر اسلام کی حقانیت کا پرچم بلند کرنے والوں کا پاک گروہ تھا ۔ایک کے حصے میں اللہ کی رحمت آئی اور عالم اسلام کی عقیدت و محبت آئی اور دوسرے کےحصے میں ملامت ولعنت آئی، نتیجہ یہ ہوا کہ آج دنیا بھر میں ایسے لوگ ملیں گے جن کے ناموں میں حسین لگا ہے لیکن آج کوئی یزید نام کا آدمی نہیں ملتا۔

اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام کے مہینے سے ہوتا ہے اور اختتام ذوالحجۃ کے مہینے سے ہوتا ہے، یعنی قربانی سے شروع اور قربانی پہ ختم۔ یکم محرم الحرام کو مراد قلب رسول امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی، اُن کے اوپر حالت ِنماز میں پیچھے سے حملہ کیا گیا۔ یہ بات بھی ڈنکے کی چوٹ پر کہی جاسکتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حالت نماز میں پیچھے سے حملہ اس لئے کیا گیا کہ دنیا کی کسی ماں نے ایسا بیٹا جنا ہی نہیں تھا جو سامنے سے آکر حضرت عمرؓ کا مقابلہ کرتا اور حملہ کرتا۔

ذوالحجۃ کے مہینے میں داماد ِرسولؐ خلافت راشدہ کے تیسرے ستون سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دردناک شہادت ہوئی جبکہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کا واقعہ بھی بہت تفصیلی ہے، جسے تحریر کرنے سے مضمون کافی طویل ہوجائے گا۔

اب جسے آلِ ابراہیم ؑاور آلِ رسولؐ کامطلب سمجھنا ہے، وہ آتشِ نمرود سے لے کر واقعات کربلا تک غور کرے، تو سب کچھ سمجھ میں آجائے گا۔ جب ابراہیم علیہ السلام کو نار ِنمرود میں ڈالا گیا تو جبرئیل علیہ السلام نے خواہش پوچھی اور اس خواہش کو اللہ تک پہنچانے کا وعدہ کیا تو ابراہیم علیہ السلام نے خواہش ظاہر کی کہ اے جبرئیل !آخری نبی ؐیعنی خاتم الانبیاء میری نسل سے ہوں، بس یہی خواہش ہے۔ تو جبرئیل علیہ السلام نے یہ خواہش اللہ کی بارگاہ میں پیش کی ۔اب اسی نسل سے دنیا میں تشریف لانے والے خاتم النبیین ؐ نےجب مکہ والوں کو جمع کرکے پوچھا کہ بتاؤ! میں اگر کہوں کہ اُس پہاڑی کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہوا ہے جو عنقریب تم پر حملہ کرسکتاہے تو کیا تم مان لوگے؟ سب نے ایک آواز ہوکر کہا کہ ہاں، ہم مان لیں گے کیونکہ آپ سچے ہیں، آپ صادق و امین ہیں، تب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا کہ سنو! میں محمد ابن عبد اللہ بھی ہوں اور محمدرسول اللہ بھی ہوں، اللہ نے مجھے آخری نبی بنایا ہے ۔میں تم سب کو ایک اللہ کی طرف آنے کی دعوت دے رہا ہوں۔ اب وہی لوگ مخالف ہوگئے، طرح کے ظلم وتشدد کرنے لگے ،یہاں تک کہ طائف والوں نے پتھر برسائے اور لہو لہان کیا تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ اگر آپؐ کہیں تو دونوں پہاڑوں کے درمیان انہیں مسل دیا جائے تو نبی پاکؐ نے فرمایا کہ نہیں، میں دنیا کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں، میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ انہیں ہدایت دے۔ اب اُسی خاتم الانبیاءؐ کے نواسے کو خطوط بھیج بھیج کر کربلا آنے کی دعوت دی گئی اور اُن کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا وعدہ کیا گیا مگر جب امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کربلا آئے تو سارا معاملہ اس کے برعکس بلکہ ہر شخص دشمن بنا ہوا ہے۔پانی بند کردیاگیا ،دریائے فرات پر پہرہ لگادیا گیا جبکہ امام عالی مقام ؓنے کہا کہ اے لوگوں تم نے مجھے خطوط لکھ کر بلایا ہے یعنی میں آیا نہیں بُلایا گیا ہوں ،کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرے نانا خاتم الانبیاء ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرے باپ حضرت علیؓ ہیں اور ہم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، شریعت کے ساتھ بغاوت نہیں کی، پھر ہمارے اوپر پانی کیوں بند کیا گیا۔ پانی تو اُس کا بند ہونا چاہئے جو شریعت کا باغی ہو جائے مگر اِن پتھر دل انسانوں پر امام حسینؓ کے خطبے کا کوئی اثرنہیں پڑا، انہیں دنیا کی چکاچوند روشنی میں کچھ نظرنہیں آرہا تھا، صرف دنیا کی حکومت نظر آرہی تھی پھر ان دشمنوں نے اعلان کردیا کہ آپ ؓنے جو کچھ بتایا، وہ سب ہمیں معلوم ہے لیکن آپؓ کو یزید کی بیعت قبول کرنی ہوگی یا پھر جنگ کرنی ہوگی، بیعت کے علاوہ ہمیں کوئی بات اور کوئی شرط منظور نہیں۔ اسی لئے کہاجاتاہے کہ میدان کربلا میں نمرودی تیور سے لے کر ایوبی صبر تک کا منظر نظر آئے گا، جتنے بھی انبیاء و صحابہ کا ظالموں سے ٹکراؤ ہوا ہے تو ظالم کی نیت کا دارومدار دنیاوی مقاصد پر تھا اور انبیاء و صحابہ کا مقصد دین کی سربلندی تھا اور اسی دین کی اصلیت کو برقرار رکھنے کی خاطر امام عالی مقامؓ نے اپنا اور کنبے کا سر کٹا دیا ورنہ معاملہ تو اتنا ہی تھا کہ بیعت کرو جان بچاؤ، مگر نانا کی گود میں پلنے والے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جانتے تھے کہ ہاتھ دے کر سر اور جان بچانے کا مطلب کہ نانا کا دین اصلی شکل میں موجود نہیں رہے گا، اس لئےسَر دے کر ہاتھ بچانا ضروری ہے کیونکہ ہمارا ہاتھ ایک مہر و سند ہے اور اس مہر و سند کو بچانے میں ہی دین کی بھلائی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سَر کٹنے کے بعد بھی نیزے پر بلند ہوکر دین اسلام کی صداقت بلند کرتا رہا اور ظلم و جبر و دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کرتا رہا۔ یزید بظاہر بھلے ہی مورچہ جیتا ہو، مگر جنگ ہارا ہے۔ اس کے ناپاک عزائم و ارادے اور مقاصد و منصوبے سب موت کے گھاٹ اُتر گئے، اُس کے نظریات خاک میں مل گئے۔ آج اس کے لئے کچھ باقی ہے تو صرف لعنت باقی ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ جناب ِناناؐ کے دشمنوں نے بھی تسلیم کیا محمدؐ سچے ہیں، صادق و امین ہیں، پھر ایک زمانہ آیا کہ نواسےؓ کے دشمنوں نے بھی تسلیم کیا کہ آپ عابد و زاہد ہیں، آپؓ نے امانت میں خیانت نہیں کی ہے۔ سب کچھ تسلیم کرنے کے بعد بھی امام عالی مقامؓ سے اتنی دشمنی کہ 6 ماہ کے علی اصغر کی پیاس پر بھی ظالموں کو رحم نہ آیا اور حد تو یہ تھی کہ اذان کے کلمات بھی بلند کرتے تھے اور نمازیں بھی پڑھتے یعنی درودِ ابراہیمی بھی پڑھتے تھے (اللہم صل علی محمد و آل محمد) اپنی زبان سے پڑھتے بھی تھے اور اسی آلِ محمدؐ کے خون کے پیاسے بھی تھے۔

مذہب اسلام پر دہشت گردی کا الزام لگانے والوں دیکھو! سب سے پہلے حضرت عمرؓ دہشت گردی کے شکار ہوئے پھر حضرت عثمان غنیؓ بھی دہشت گردی کے شکار ہوئے جنہوں نے حضرت عثمان غنی کو شہید کیا وہ بھی نمازیں پڑھا کرتے تھے اور کلمہ پڑھا کرتے تھے، اس کا مطلب کہ حضرت عمر فاروق اعظمؓ کی شہادت کے بعد مخالفین اسلام نے مذہب اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہونا شروع کردیا اور جن جن شخصیات سے اسلام کی تبلیغ و ترویج و اشاعت کو زبردست فروغ ملتا تھا ، اُن شخصیات کو نشانہ بنانا شروع کردیا اور یہ سلسلہ چلتے چلتے معرکہ کربلا، سانحہ کربلا کی شکل میں رونما ہوا جو اسلامی تاریخ کا المناک، کربناک، دردناک واقعہ ہے۔

آج کے ترقیاتی و جدید روشن خیالی کے دور میں بہت سے لوگ یہ سوال کھڑا کرتے ہیں کہ جب مکہ و مدینہ کے لوگ کربلا جانے سے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منع کرتے تھے تو وہ کیوں نہیں رُکے، انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کوفہ و کربلا سے جو خطوط بھیجے گئے تھے، اس میں یہاں تک تحریر کیا گیا تھا کہ آپ تشریف لائیں ہم لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ اگر نہیں آئیں گے تو نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً ہم یزید کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے اور اس کے ذمہ دار آپؓ ہوں گے۔ جبکہ دوسرے پہلو پر بھی غور کیا جاسکتا ہے کہ نواسہ رسولؐ کے ہوتے ہوئے دین کی شبیہ کو بگاڑا جارہا تھا، اب ایسے میں اگر امام عالی مقامؓ خاموش رہتے تو آج جو لوگ سوال کھڑا کررہے ہیں یہی لوگ کہتے کہ جب دین کی شبیہ کو بگاڑا جارہا تھا تو امام حسینؓ نے زبان کیوں بند رکھی۔ اگر یزید کے ہاتھوں پر بیعت کر لیتے تب بھی وہی بات ہوتی کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے جب امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت کرلی تب تو یزید کی خلافت کو سند حاصل ہوگئی۔ اسی بات کو محسوس کیا اور مدینہ منورہ میں بھی خونریزی کا اندیشہ تھا تو ایسی صورت میں مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے تقدس کو بھی بچانا تھا اور دین اسلام کی اصل شناخت کو بھی بچانا تھا، اسی لئے سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں نہیں دیا اور پورا خاندان قربان کرکے مذہب اسلام کو سرسبز و شاداب کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا سے یزیدیت مٹ گئی اور حسینیت زندہ ہے۔
[email protected]