محرم الحرام کی دس تاریخ کی اہمیت فکر انگیز

رئیس صِدّیقی

محرم ، اسلامی کلینڈر، ہجری کا اول مہینہ ہے ۔یعنی ہجری1444 کا یہ پہلا مہینہ ہے۔ محرم کے معنی ہیں حرمت والا اور الحرام کے معنی ہیں قابلِ احترام۔ تو محرم الحرام کے معنی ہوئے حرمت والا قابلِ احترام مہینہ ۔ محرم کی دس تاریح کو عاشورہ یا یومِ عاشورہ یا روزِ عاشورہ کہا جاتا ہے ۔اسلامی تاریح میں محرم کی دس تاریح بہت اہم ہے۔ اس دن اسلامی دنیا کے بہت سے اہم اور نا قابل فراموش واقعات رونما ہوئے۔ جیسے: آسمان و زمین اور حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا گیا۔حضرت ادریسؑ کو آسمان پر اٹھایا گیا۔حضرت نوحؑ کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہو کر کوہِ جودی پر لنگر انداز ہوئی اور حضرت نوحؑ نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا۔حضرت ابراہیم ؑ کو خلیل اللہ یعنی اللہ کا دوست کا لقب حاصل ہوا ا ور ان پر نمرود کی آگ گلِ گلزار ہوئی۔حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے۔حضرت یوسفؑ کو قید خانہ سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔

 

حضرت یوسفؑ کی حضرت یعقوب ؑ سے ایک طویل عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی۔ بنی اسرائیل کے لیے دریا پھٹ گیا اور فرعوں لشکر سمیت دریا میں غرق ہو گیا اورحضرت موسیٰ ؑ کو فرعون کے جبر و طلم سے نجات ملی۔حضرت موسٰی ؑ پر توریت نازل ہوئی۔حضرت سلیمانؑ کو بادشاہت واپس ملی۔حضرت ایوبؑ کو سخت بیماری سے شفا اور صحت مندی نصیب ہوئی۔حضرت یونسؑ چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد زندہ سلامت باہر تشریف لائے۔حضرت یونسؑ کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور انکے اوپر سے عذابِ الٰہی ختم ہوا۔حضرت عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے اور بعدمیں اسی دن یہودیوں کے شر سے نجات دلا کر آسمان پر اٹھایا گیا۔اہلِ قریش خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔ ہمارے نبی حضرت محمدؐنے حضرت خدیجہ ؓ سے نکاح فرمایا تھا۔ کوفہ کے فریب کاروں نے میدان کربلا میں نواسہء رسول ؐ اور جگر گوشہء فاطمہ ؓحضرت امام حسین ؓکو ان کے کئی ساتھیوں کے ساتھ شہید کیا گیا۔

 

بلاشبہ ، نواسۂ رسول، شہیدِ کربلا حضرت امام حسین ؓ کی ذاتِ گرامی خاندان رسالت اور اسلامی تاریخ کا گراں قدر اور تاریخ ساز باب ہےاور امام حسینؓ کی شہادت کا واقعہ تاریخ اسلام میں خون آلودہ حروف سے لکھا گیااور اشک بار آنکھوں سے پڑھا گیا ۔شہید کربلا امام حسین ؓ خانوادئہ اہلِ بیتؓ کے ایک اہم فرد ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اہل بیت اور قرابت داروں سے محبت قرآن مجید اور فرامین رسولؐ سے ثابت ہے۔ رسول اللہؐ اپنے اہل ِبیت ؓسے محبت کاحکم دیتے تھے۔ اس لئے امت پر لازم ہے کہ وہ محبت واطاعتِ اہل بیتؓکو اپنا شعار بنائیں ۔مگراس دن بہت سے لوگ کافی شدت سے سوگ مناتے ہیں۔ کسی جگہ آگ پر ننگے پیر چلتے ہیں۔ چھری کی لڑی سے اپنے جسم کو زخمی کرتے ہیں، زنجیر زنی سےاپنا خون بہاتے ہیں، سینہ کوبی کرتے ہیں،اپنے سر کے بال نوچتے ہیں۔ اپنے گریبان چاک کرتے ہیں ۔آہ و فغاں، آہ و بکا اور گریہ زاری زور زور سے کرتے ہیں ۔جبکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے ہدایت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ موت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منایا جائے ۔ ان تین دنوںکے دوران فطری طور پر غم کرنا یا رونے اور آنسو بہانے کی اجازت ہے لیکن کسی بھی صورت میں اپنے جسم کو تکلیف دینا قطعی طور پر منع ہے ۔ کیوں کہ اللہ نے ہمیں پیدا کیا اور اللہ ہمیں اپنے پاس واپس بلا سکتا ہے ،یہ اسکا حق ہے،اور اُسی کو ہماری زندگی اور موت پر اختیار حاصل ہے ۔ ہر جاندار پر موت لازمی ہے۔ اس کے فیصلہ میں کسی کو بھی، کسی بھی طرح کی دخل کی اجازت نہیں ہے ۔ اسی لیے اپنے آپ کو تکلیف دینا یا اپنے آپ کو قتل کرنا یا خود کشی کرنا حرام قرار دیا گیا ۔

 

Mob: 9810141528
[email protected]