قرض افسانہ

رئیس احمد کمار

آپ نے تیس سال تک سرکاری نوکری کر کے کیا حاصل کیا ہے ۔ نہ رہنے کے لئے کوئی اچھا سا مکان بنوایا ، نہ اپنے لئے گاڑی خریدی ہے اور نہ ہی بچوں کے مستقبل کی کبھی فکر کی ہے ۔ آپ ہی کے ساتھ گلزار خان بھی سرکاری ملازم تھا ۔ وہ صرف بیس سال سرکاری نوکری میں رہ کر ہی ریٹائر ہوا ہے لیکن جتنی ترقی گلزار خان نے اپنے نام کی ہے پورے علاقے میں اتنی ترقی کسی نے‌ نہیں کی ہے ۔ اپنے دو لڑکوں کے لئے دو عالیشان بنگلے نوکری کے دوران ہی تعمیر کروائے ، جموں اور دہلی میں فلیٹ خرید کر رکھے ہیں سردیوں کے ایام وہاں گزار کر وہ وادی کی ٹھٹھرتی سردیوں سے خود کو اور اپنے اہل وعیال کو بھی نجات دلواتا ہے ، شہر میں ایک بڑا شاپنگ کمپلیکس بھی بنوایا ہے اور اپنے آبائی گاؤں میں بھی زمین کے کئی کنال خریدے ہیں ۔۔۔۔۔۔
دلاور علی کو اپنی اہلیہ سے ہر روز شام ہوتے ہی ایسی باتیں سننی پڑتی تھیں ۔ دلاور واپس جواب دینے کے بجائے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھتا تھا ۔ وہ سیکریٹیریٹ میں بحثیت سیکشن آفیسر دو سال قبل ہی اپنی نوکری سے سبکدوش ہوا تھا ۔ صوم صلوٰۃ کے پابند دلاور نے اپنی تیس سالہ نوکری کے دوران کسی بھی سائیل سے کبھی ایک بھی پیسہ غلط طریقے سے وصول نہیں کیا ۔‌ بس اپنی ماہانہ تنخواہ پر ہی گزارہ کرنا دلاور نے گویا اپنی زندگی کا آئین بنایا تھا ۔ اس کی کوئی بالائی آمدنی نہیں تھی ۔ پورے سیکریٹیریٹ میں دلاور کی ایمانداری کی داد دی جاتی تھی اور اس وجہ سے وہ سماج میں بھی اپنی ایک خاص پہچان بنانے میں کامیاب ہوا تھا ۔
روز بیوی کی باتوں سے تنگ آکر دلاور علی نے آخر بنک سے پچاس لاکھ کا قرضہ لے لیا ۔ اس نے ایک محل جیسا مکان بنوایا، دس لاکھ کی ایک آرام دہ گاڑی لائی اور ایک دو کنال کی زمین بھی گاؤں میں ہی خریدی ۔
مکان کی چھت وغیرہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد کمروں کو دلہن کی طرح آراستہ کرکے سجایا گیا ۔‌ قیمتی قالین بچھائے گئے، جدید قسم کے ایل ای ڈی بلب نصب کئے گئے اور کھڑکیوں کے مہنگے اور رنگین پردوں سے سارے مکان کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے۔۔۔۔
دلاور علی نے اپنے تمام دوستوں اور احباب کو دعوت پر بلایا کیونکہ اب انہیں نئے محل جیسے مکان میں قدم رکھنا تھا اور اپنی اہلیہ اور بچوں کے اصرار پر ہی تمام لوگوں کو دعوت دی گئ تھی ۔
دعوت کے روز اور جس دن انہیں نئے مکان میں جانا تھا ، دلاور علی اپنے دو بیٹوں سمیت بازار سے کچھ ضروری گھریلو اشیاء لانے کے لئے گاڈی میں نکلے ۔ خرید وفروخت کرکے وہ واپس گھر کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی مخالف سمت سے آرہی ایک تیز رفتار ٹپر سے ٹکر کھا گئی۔ تینوں باپ بیٹے شدید طور زخمی ہوگئے اور گاڑی کو بھی خاصا نقصان ہوا ۔ تینوں زخمیوں کو راہگیروں نے ہسپتال پہنچا دیا اور ڑاکٹروں کی لاکھ کوشش کے باوجود وہ تینوں باپ بیٹے زندگی کی جنگ ہار گئے ۔ گھر میں ابھی تک جو خوشی اور مسرت کا ماحول تھا ایکدم ماتم میں تبدیل ہوگیا ۔ کوئی کسی کے ساتھ نہ رہا اور ہر آنکھ نم اور ہر قلب رنجیدہ دکھ رہا تھا ۔
اس قیامت جیسے عالم میں دلاور علی کی اہلیہ کمرے کے ایک کونے میں مایوسی کے سمندر میں غرق ہو گئی تھی اور اس کی آنکھوں سے اشک ایسے بہہ رہا تھا کہ پلکوں کی حد توڑ کر سیدھے دامن میں گر جاتا تھا ۔
اس اثناء میں جو لوگوں کا جم غفیر وہاں موجود تھا وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ دلاور علی کی اہلیہ اپنے شوہر اور بچوں کا ماتم منا رہی تھی یا وہ اس لئے رنجیدہ تھی کہ بنک سے لیا گیا پچاس لاکھ کا قرضہ بشمول سود کس طرح واپس کیا جائے۔
���
قاضی گنڈ کشمیر