عجب علاجِ تنہائی کہانی

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی

’’آخرکیابات ہوئی ہے؟ کچھ توبتاؤ؟‘‘انورنے اپنے دوست اشرف سے پوچھا۔ مگر اشرف بدستورخاموشی اختیارکئے رہا۔وہ صرف انورکی باتیں سنتا رہا مگرکوئی جواب نہ دیا۔’’تم کومیری قسم کچھ توکہو!میں بڑابے تاب ہوں۔‘‘ انورنے بڑی بے صبری سے پھرپوچھا ۔آخرکاراشرف نے مجبورہوکربولاکہ میرے بھائی دراصل بات یہ ہے کہ
ایک روزمیں صبح اپنے دفترجانے کے لئے الماری سے اپنے لئے کپڑے نکال رہاتھاتواچانک کپڑوں کے نیچے سے ایک چٹھیوںکابنڈل فرش پر گرپڑا۔ میںنے ان کواٹھایااوربیچ بیچ میںورق گردانی کی۔یہ کیا؟میرے اللہ !یہ میں کیادیکھ رہا ہوں!میںنے دل ہی دل میں اپنے آپ سے کہا۔جیسے جیسے میں ایک ایک خط پڑھتاگیا ۔میرادل زیادہ ہی دھک دھک کرنے لگا۔زبان خشک ہوگئی، ہونٹ کپکپانے لگے۔ٹانگیں کانپنے لگیں۔مجھے یوں محسوس ہونے لگاکہ میں ابھی زمین پر گر جاؤں گامیںسوچنے لگاکہ نصرین اوریہ گھناؤنی حرکت ! چھی چھی !!لعنت اس پراورلعنت میری سادگی اوراندھے یقین پر۔آنے دو۔ میںاس کوسبق سکھاؤں گا۔میںنے اپنے آپ سے کہا۔
نہیں ایسے نہیں ۔میرے دماغ میں کئی سوالات اوران کے جوابی حل گھومنے لگے۔کچھ سمجھ نہیں آرہاتھاکہ کیاکروں۔
نصرین اوراسکی سہیلی پروین دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھیں اور کافی گہری دوست تھیں دونوںکوہی مجھ میں دلچسپی تھی۔ دونوں ہی مجھ سے محبت کرتی تھیں۔ مگرایک نے دوسری کویہ بات نہ کہی اوردونوںکوہی میرا ہم سفر بننے کی تمناتھی مگرکسی نہ کسی طرح نصرین ہی اپنے مقصدمیں کامیاب ہوگئی ۔ پروین نے اپنی ناکامیابی کوکبھی بھی اپنے ہونٹوں پرنہ لایااورنا ہی اس غم کو ظاہر ہونے دیا بلکہ نصرین کی خوشی میں برابر کی شریک رہی۔ کسی طوراس خواہش اوررازکوظاہرنہ ہونے دیا۔اب چٹھیوں کے گرجانے سے میرابنابنایامحل بھی دھڑام سے گرتانظرآنے لگا۔اشرف نے نصرین کوسبق سکھانے اوربدلہ لینے کے لئے ایک حکمت عملی اختیارکی ۔وہ اپنے ڈاکٹر اعجازکے پاس گیااور اسکو کہاکہ آپ کومعلوم ہے کہ ہماری شادی کوتین سال ہوگئے ہیں اوربچہ ہونے کی کوئی امیدنظر نہیں آرہی ہے۔میںجہاں کہیں بھی بچوں کوکھیلتے ،اچھلتے کودتے ، سکول جاتے دیکھتا ہوںتومیری طبیعت بہت خراب ہوجاتی ہے۔دل بھاری اورمغموم ہوجاتاہے۔
ایسے میں آپ میری کیامددکرسکتے ہیں۔جواب میں ڈاکٹرنے کہا۔ ٹھیک ہے، پہلے تومیںاس گائینی کولوجسٹ سے پوری حقیقت معلوم کروںگا جونصرین کااتنے سالوں سے علاج کررہی ہے۔اس کے بعدہی میں صحیح مشورہ دوںگا۔ دوسرے دن اشرف پھرڈاکٹراعجازسے ملاتوڈاکٹرصاحب نے کہا۔’’بچہ ہونے کاکوئی چانس نہیں ہے کیونکہ نصرین بھابی میں ہی کچھ ایسانقص ہے۔اس لئے آپ اب دوسری شادی کرنے کاحق استعمال کرسکتے ہیں۔ اسلام توایسی صورت حال میں پوری طرح اجازت دیتاہے ۔اورہاں!اس معاملہ میں نصرین کی سہیلی ناظمہ کاانتخاب بہترین ثابت ہوسکتاہے۔دونوں پہلے سے ہی سہیلیاں بھی ہیں اورشادی کے بعداوراچھی طرح اکٹھے رہیں گی۔یہ تجویزاشرف کوپسندآئی بلکہ اسکوخودبھی ایسا خیال تھاکیونکہ ناظمہ بھی اس میں دلچسپی رکھتی تھی مگرنصرین کے ساتھ شادی کے بعداس نے یہ راز اپنے سینے میں چھپارکھاتھا۔ چونکہ اشرف پوری طرح غصہ اورانتقامی جذبے سے سرشارتھااس لئے وہ اب بہت جلدی اس کابدلہ لینا چاہتا تھا۔ ڈاکٹر کوساتھ لے کرناظمہ کے سکول گئے جہاں وہ پرائیوٹ طوراستانی تعینات ہوئی تھی۔اسی تنخواہ سے اس کاگذربسرہوتاتھا۔ یہ تینوں یعنی اعجاز،ناظمہ اوراشرف ڈاکٹر اعجاز کے ہاں گئے جہاںپوری طرح تفصیل سے ہربات پرمدلل بات چیت ہوئی ۔ناظمہ نے پہلے توصاف انکار کیا کیونکہ وہ اپنی سہیلی کے ساتھ یہ دغا کرنے کے حق میں نہیں تھی۔مگر ڈاکٹر صاحب کے سمجھانے بجھانے پروہ مان گئی ۔وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اس کی سہیلی بھی ایسا قدم اٹھانے کے لئے راضی ہو۔
اب ڈاکٹراوراشرف دونوںنے اس کویقین دلایاکہ نصرین کوکیا اعتراض ہوسکتاہے ۔آخراشرف صاحب کوبچہ توچاہئے ہی اوراب یہ ثابت ہوگیاہے کہ نصرین کسی وجہ سے ماںنہیں بن سکتی ہے ۔ویسے اشرف نے اپنے دوست اعجاز کوچٹھیوں کی کہانی نہیں بتائی تھی۔اس کو رازمیںہی رکھاتھا۔اب یہ تینوں مقامی مسجد کے امام سے ملے۔ اس کو پوری بات بتائی ۔ناظمہ کی طرف سے والد یا بھائی کے فرائض ڈاکٹر اعجاز نے اداکئے ۔وہاںسے یہ تینوں اپنے گھرپہنچے ۔ جہاں نصرین پوری بات سن کرحیران وپریشان ہوئی۔وہ ہکابکا ہوکررہ گئی۔ اس سے بات نہیں نکل رہی تھی ۔وہ تھرتھرانے لگی ۔اس کی ٹانگیں جواب دے گئیں۔ اس کے پسینے چھوٹے۔رنگ یکدم پیلا پڑ گیااورپھراپنے ہوش وحواس سنبھالتے ہوئے تھرتھراتی آوازمیں اشرف سے پوچھ لیاکہ آخرایسی کیا بات ہوگئی کہ آپ نے اتنابڑاقدم اٹھایا۔نہ اشرف نہ اعجاز اورنہ ہی ناظمہ کچھ کہہ سکتی تھی۔ تینوں خاموش تھے۔جب معاملہ بہت زیادہ سنجیدہ ہوگیا تو نصرین کی حالت اورزیادہ دگرگوں ہونے لگی۔ یوںلگتا تھا کہ وہ ابھی بے ہوش ہوکرگرپڑے گی۔پھرہمت جٹاکراشرف نے چٹھیوں کے بنڈل کی پوری کہانی سنادی جس کوسن کرڈاکٹراعجاز اورناظمہ حیران ہوگئے کیونکہ ابھی تک ان کواس بات کی خبرہی نہ تھی۔معاملہ کی نزاکت کودیکھ کرناظمہ نے وضاحت سے بتایاکہ وہ ہی یہ چٹھیاں نصرین کولکھتی تھی ۔اس طرح سے وہ اپنا اکیلاپن دورکرنے کی کوشش کرتی تھی۔یہ کوئی نہیں ،وہ خودہی یہ چٹھیاںلکھتی تھی نصرین نے بھی اس بات کااقرارکیاکہ واقعی وہ یہ چٹھیاں باقاعدگی سے حاصل کرتی تھی۔اب چاروں افرادنے آپس میں مل بیٹھ کراس مسئلے کے ہرپہلوپر سنجیدگی کے ساتھ غور وخوض کیا۔ایک دوسرے کے گلے اور شکوے دورکئے ۔غلط فہمی پربھی بحث ہوئی بچہ نہ ہونے کامسئلہ بھی زیربحث آیاجس کوسن کرنصرین بھی خوشی خوشی آمادہ ہوگئی۔ ہرایک کے صلاح مشورے کے بعدناظمہ کوقبول کیاگیا۔غلط فہمی دورہوگئی ۔ دونوں سہیلیاں ایک دوسرے سے گلے ملیں اورخوشی خوشی ازدواجی زندگی گزار نے لگیں۔ڈاکٹر اعجازنے دونوں لڑکیوںکوسمجھاتے ہوئے کہا کہ آپ دونوں توپہلے سے ہی بہنوں کی طرح رہتی تھیں اب ایک دوسرے کی سوتن بن کربھی اصلی بہنوں کی طرح ہی رہنا۔مجھے اس بات کاپوراپورا یقین ہے۔
���
جموں، حال ہمہامہ سرینگر، موبائل نمبر؛8825051001