چنار کا پیڑ افسانچہ

بشیر اطہر

عبدالجبار جنگلوں سے لکڑیاں چُرا کر لیجاتا تھا اور شہر میں ان لکڑیوں کو لیکر بڑے داموں فروخت کرکے اپنا پیٹ پالتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہ پیڑ بیکار کے ہیں نہ پھل دیتے ہیں اور نہ ہی کوئی پھول۔ وہ اکثر چنار کے ایک پیڑ سے نکلتا تھا اور جب تھکتا تھا تو اس کے نیچے آرام کرنے کے بعد جنگل کی طرف چلا جاتا تھا۔ جبار کے ساتھ ساتھ اب چنار کا پیڑ بھی بڑا ہوتا گیا۔ نہ ہی جبار کی شادی ہوئی اور نہ ہی چنار کا کوئی درخت…… جبار بھی اکیلا اور چنار کا درخت بھی اکیلا….اب ان کی آپس میں گہری دوستی ہوگئی وہ ایک دوسرے سے اپنی دل کی باتیں کہتے تھے اور اپنے من کا بوجھ ہلکا کرتے تھے۔
آپ درخت کیوں کاٹتے ہیں جبکہ ان کی بھی جان ہوتی ہے تمہاری طرح۔۔۔
اپنا پیٹ پالنے کےلئے کچھ بھی کرنا پڑتا ہے اور میں وہ درخت کاٹتا ہوں جو بیکار ہوتے ہیں۔
کوئی چیز بیکار نہیں ہے اللہ نے جتنی بھی چیزیں پیدا کی ہیں وہ سبھی کارآمد ہیں وقت پر آپ کو سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔
درخت کے ساتھ ساتھ جبار بھی کافی بوڑھا ہوگیا۔ اب وہ جنگل نہیں جاسکتا تھا اور پیٹ پلنا مشکل ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ آج میں چنار کے درخت کو ہی کاٹ کر بیچ دوں گا تاکہ میری پیٹ پوجا ہوجائے۔ اپنی کلہاڑی اور آرا لیکر درخت کے پاس پہنچا تو درخت نے حال احوال پوچھا۔
میں اب ضعیف ہوگیا ہوں۔ سانس لینے میں دِقت آرہی ہے اور آکسیجن مشین سے گزارا ہورہا ہے جو خرید کر لینا پڑتا ہے۔ کھانے کےلئے کچھ میسر نہیں ہے۔ بھوکا ہوں اس لئے سوچا کہ آپ کو ہی کاٹ کر اپنا گزارہ کرلوں کیوں کہ جب دوست مصیبت کے وقت کام نہ آئے تو کون آئے گا۔
چنار نے ایک آہ بھری اور کہا جو آکسیجن آپ خرید کر لیتے ہیں وہ میں آپ کو کئی بار مفت میں دے چُکا ہوں اور یہاں آکر آپ آج بھی مفت میں لے رہے ہیں اس لئے مجھے چھوڑیں۔
نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ہے بزرگ نے کہا میں کئی روز سے بھوکا ہوں آپ کی لکڑیاں خرید کر ہی اپنی بھوک ہٹا سکتا ہوں….
آپ قریب آئیے اور دیکھئے میری گود میں یہ مشروم ہیں ان کو لیجا کر پکائیں اور اپنا گزارہ کیجئے۔
جبار نے مشروم لیکر پکاکر خوب مزے کئے۔خدا کا کرنا تھا کہ ایک دن ایسا طوفان آیا کہ جھونپڑیاں غائب ہوگئیں اس کی زد میں عبدالجبار کی بھی جھونپڑی آئی۔ باقی لوگوں نے اپنی اپنی جھونپڑیاں تعمیر کیں مگر اس کی جھونپڑی نہ بن سکی کیونکہ اس کے پاس نہ ہی لکڑی تھی اور نہ ہی پیسہ۔ وہ اب بےگھر تھا اور ادھر اُدھر بھٹکتا تھا۔ بھٹکتے بھٹکتے وہ چنار کے درخت نیچے آکر بیٹھ گیا۔ چنار اس کی یہ حالت دیکھ کر مایوس ہوگیا اور جبار سے پوچھا کیا ہوا؟ آپ اُداس کیوں ہو؟میرے دوست…..چنار نے حیران ہوکر پوچھا…..
دوست میری جھونپڑی طوفان سے اُکھڑ گئی اسی لئے آج بھٹک رہا ہوں اور اب میں پریشان ہوں کہ کیسے نئی جھونپڑی تعمیر کروں کیوں کہ نہ میرے پاس پیسے ہیں اور نہ ہی بازوؤں میں طاقت…..
کوئی بات نہیں آپ میرے اس کھوکھلے تنے کو اپنا گھر ہی سمجھ لیجیے اور آپ کی جتنی بھی زندگی بچی ہے وہ یہیں پر گزاریئے تاکہ میں سمجھوں گا کہ میں بھی کسی کے کام آیا۔
اب جبار کی سمجھ میں آیا کہ دنیا میں جو بھی چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں وہ بیکار نہیں ہیں اور درخت سے کہا کہ آپ سچ کہہ رہے تھے کہ دنیا میں کوئی چیز بیکار نہیں ہے…. اس کے بعد جبارنے اپنی ساری زندگی اسی پیڑ کے تنے میں عبادت خدا میں گزاری اور وہیں پر وفات پائی اور ان کا مزار بھی اسی پیڑ کے نیچے بنایا گیا اور اس کی قبر پر لوگوں کا تانتا لگتا رہا۔
����
خانپورہ کھاگ بڈگام،موبائل نمبر؛7006259067