بہترین دوست بچوں کا ادب

ٹی۔این۔ بھارتی

لاؤبھئی ڈبے بوتل خالی!لاؤبھئی ڈبے بوتل خالی! کتاب کاپی کی ردی والا کباڑی والا،لوہے پلاسٹک ٹوٹے پھوٹے ساما ن والا، کباڑی والا۔ کباڑی والا، ارشد صبح سے ہی گلی گلی محلے محلے ان کے گھرکا فالتو سامان مانگ رہاتھا۔ دوپہرہوگئی مگراسے کہیں سے کوئی کباڑ نہ مل سکا۔ آخرتھک ہار اس نے گھرکا رخ کیا۔ چوراہا پارکرنے کے بعد نالے پربنی اپنی جھگی میں داخل ہوا۔ اس کے چاروں بچے ایک طرف کونے میں چھپ گئے۔ پسینے سے شرابورارشد نے بڑے بیٹے امجد کو آوازلگائی”بیٹوا تنک پانی پلائیدو“چھ برس کے ننھے امجد نے نہایت غلیظ ایک خالی ڈبہ ارشدکودکھایا اور وہ سمجھ گیاکہ گھرمیں پانی کی ایک بوندبھی نہیں ہے۔ ذرا دیرمیں اس کی بیوی سمرین جھگی میں داخل ہوئی۔ ماں کو دیکھ کربچوں میں خوشی کی لہر دوڑگئی۔ سمرین نے سرپررکھا پانی کا ڈبہ اتارا اور کندھے پرلٹکا تھیلا رکھ کر بچوں کو باسی روٹی اورسبزی چاول کھلانے لگی۔ سامنے والی عالیشان کوٹھی سے وہ ابھی کام کرکے لوٹی تھی اورکوٹھی کی رحم دل مالکن نے اسے رات کا بچاکافی ساراکھانا دے دیاتھا۔ بچے پیٹ بھرکھانا کھاکر نیم کے پیڑکے نیچے کھیلنے چلے گئے۔ ارشد وسمرین بچوں کو پیٹ بھرکھانا کھلاکر خودبھی باقی کھانے سے اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کرنے لگے۔ کھانا کھانے کے بعد ارشد نے اپنی بیوی سے کانپتی آواز میں کہا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ گرہستی کیسے چلے گی۔دوبکھت(دووقت)کی روٹی جٹانا ہمرے(ہمارے) بس سے باہرہوئی گوا۔اب کاکرے ہم؟کباڑ بھی ناہی ملا۔سمرین نے وفا شعار بیوی بن کر اپنے شوہرکودلاسہ دیا۔ ہمت سے کام لواللہ سب اچھا کرے گا۔ ارشد کو دن رات اپنے بچوں کی فکرتھی۔ چھ سالہ امجد، پانچ سالہ عابد، چارسالہ عامر، تین سالہ امرین،اورپانچواں بچہ دنیا میں آنے کے لئے بے تاب تھا۔ اس کی بیوی پانچ ماہ کی حاملہ تھی اوروہ چاہتا تھا کہ سمرین گھرمیں رہ کر بچوں کی پرورش کرے مگر وہ وقت کے ہاتھوں مجبورتھا۔
اگلی صبح اس نے حسب معمول بوری اٹھائی اور گلی گلی جاکر بلند آواز میں کباڑ مانگنے لگا۔ لاؤبھئی ڈبے بوتل خالی!لاؤبھئی ڈبے بوتل خالی! کتاب کاپی کی ردی والا کباڑی والا۔کباڑی والے بھیایہ کتابیں لے جاؤ یہ اب ہمارے بے کار ہیں۔ نسوانی آواز سن کر ارشدکے قدم رک گئے اور خوشی سے اس کا چہرا تمتانے لگا۔ دوڑکر کوٹھی کے دروازے پرپہنچ گیا۔مالکن نے ڈھیرساری کتابیں اسے مفت میں دیدیں ۔ کوٹھی سے مسلسل اسے کسی ضدی بچے کے چلانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اس نے کان لگاکرسناتومعلوم ہواکہ کوٹھی کا اکلوتا بیٹا سلمان اپنے ڈیڈی سے موبائل اورکمپیوٹرلینے کی ضدکررہاتھا۔ سلمان کے ڈیڈی اپنے آٹھ سالہ بچے کو سمجھا رہے تھے کہ موبائل تمہارے لئے نقصان کی چیز ہے۔ تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔نہیں نہیں ڈیڈی میں کچھ نہیں جانتا۔مجھے ابھی چاہئے موبائل۔مجھے کمپیوٹردلوادیجئے۔ میں بھی گیمزکھیلوں گا۔ سلمان چلاچلاکر رورہاتھا۔کوٹھی کے مالک سلیم خا ن نے جذباتی اندازمیں جیب سے اپنا قیمتی موبائل نکال کر سلمان کودے دیا۔ یہ لومیرے لخت جگراپنے بیٹے کی ہرفرمائش پوری کرنے کو تیارہوں۔ بھلا میں دن رات کس کیلئے کما رہاہوں۔دن رات محنت صرف اپنے بیٹے کیلئے کررہاہوں۔سلیم کی شریک حیات غصہ کرتے ہوئے بولی آپ بچے کو بگاڑرہے ہیں۔ ابھی اس کی عمر کمپیوٹراور موبائل کی کہاں ہے۔ یہ بہت ناسمجھ ہے۔بیگم آ پ خاموش رہئے۔ ہم اپنے بیٹے کی ہرتمنا پوری کرنا چاہتے ہیں۔ سب کچھ اسی کے لئے تو ہے۔شام کو کمپیوٹربھی لے آؤں گا میں اپنے بیٹے کو کسی بھی چیز کیلئے ترسانا نہیں چاہتا۔ اچھا بیگم ہم چلتے ہیں اللہ حافظ۔
ارشد کباڑی والے نے جلدی جلدی کتابیں بھرکر گھر کی راہ لی۔ بچے خوش ہوکر بھری ہوئی بوری سے ٹوٹاسامان نکالنے لگے۔پرانی کتابیں دیکھ کر بچے چلائے آہا کتابیں!ہم بھی کتابیں پڑھیں گے۔ ہم بھی اسکول جائیں ابا۔ہم بھی پڑھنا چاہتے ہیں۔ بچے کتابوں کو پلٹنے لگے۔امجد اورعابد ضدکرتے ہوئے بولے ابا ہمیں ابھی اسکول جانا ہے۔ میں ڈاکٹربنوں گا،میں انجینئربنوں گا۔،بڑا آدمی بنوں گا، خوب پڑھوں گا۔ارشد ماتھے سے غریبی کا پسینہ جھاڑتے ہوئے بچوں کو سمجھانے لگا۔ بیٹوا کاہے کو ضد کرتے ہو۔ہم غریب بھلا تم کو کہاں پڑھا سکتے ہیں۔ امجد اورعابد چلا رہے تھےکہ ہم کواسکول جانا ہے ہم کوپڑھنا ہے ہم کچھ نہیں جانتے۔ سمرین نے جھگی میں داخل ہوتے ہوئے بچوں کودلاسہ دیا کہ ہاں ہم تم کو اسکول میں داخل کرادیں گے، وہ سامنے والی جھگی کے بچے بھی اسکول جاوت ہیں۔ ہم نے سنا ہے کہ سرکاری اسکول میں پڑھائی مفت دی جاتی ہے۔ کاپی کتاب کھانا،کپڑا، جوتا سب کچھ سرکاردیتی ہے۔ تنک تم فکرنہ کرو۔ تم صبح اسکول چلوگے۔
امجد اورعابد اسکول جانے سے بہت خوش تھے۔ دونوں بھائیوں نے خوب محنت کی اورکلاس میں ہمیشہ پہلا درجہ حاصل کرتے رہے۔ آج دونوں بچوں کا رزلٹ آیاتھا۔ گلی ہی سے شورمچانے لگے۔ ہم نے اسکول
میں ٹاپ کیاہے۔اماں ابادیکھو ہمارا رپورٹ کارڈ۔ ٹیچرنے ہمیں خوب پیارکیا اورکل ہمارا سکول میں اسپورٹس ڈے ہے۔ ہم نے کھیلوں میں حصہ لے لیناہے۔ میں دوڑلگاؤں گا۔
میں فٹ بال کھیلوں گا۔والدین دونوں بچوں کی کامیابی پربے حد خوش تھے۔ ارشدنے دونوں کو سینے سے لگایا اورکندھے پربوری رکھ کر روزی کی تلاش میں چل پڑا۔جیسے ہی وہ سلیم خان کی کوٹھی کے آگے پہنچا۔ اسے سلیم خان کی چلانے کی آواز سنائی دی۔سلیم اپنے اکلوتے بیٹے سلمان کو بری طرح ڈانٹ رہا تھا۔ نالائق! نامعقول!یہ کیسا رپورٹ کارڈ ہے۔ ہرمضمون کے آگے لال نشان!ڈی گریڈ!سلمان گانا سننے میں مگن تھا۔ سلیم نے غصے میں سلمان کے کان سے ہیڈ فون ہٹایااوربولامیر ی بات غور سے سن لو کہ آج سے تمہارا موبائل،کمپیوٹرسب ختم۔ارے میں تمہارے لئے د ن رات محنت کرتاہوں۔ شہرکے سب سے بڑے اورمہنگے اسکول میں پڑھتے ہو۔تمہیں ساری آسائشیں حاصل ہیں اس کا پھل تم نے یہ دیاہے کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ سلمان کی والدہ غصے سے پیرپٹکتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی اورشوہرپربرس پڑی۔کیوں جی میں نہ کہتی تھی کہ بچے کو موبائل کی لت مت ڈالو۔کمپیوٹراس کے لئے ضروری نہیں۔مگرآپ نے میری ایک نہ سنی۔آپ کے لاڈ پیارنے اسے بگاڑدیا۔بیگم آپ ہمیں شرمندہ نہ کریں۔ہمیں غلطی کا احساس ہوچکاہے۔سلیم نے جھٹکے سے سلمان کے ہاتھ سے موبائل اورہیڈ فون چھین لیا۔سلمان نے شرارتاًکہا کیاہواڈیڈی اگر مجھے ڈی گریٹ آیا ہے میں نیچے سے تواو ل آیاہوں۔ پورے کلاس میں صرف میرا ہی ڈی گریڈ آیاہے۔ممی ڈی گریڈ تواچھاہوتاہے چپ ہوجا بیوقوف!اللہ تجھے عقل دے۔ڈی گریڈ کا مطلب ہوتاہے فیل۔جوکلاس کے سب سے گندے بچے کو دیاجاتاہے۔ارشدکباڑی والے نے کوٹھی سے آرہی آواز سن کر آگے قدم بڑھانے میں عافیت سمجھی اورتیز آوازبلند کرتے ہوئے کباڑمانگنے لگا۔آج ارشدنے کافی سارا کباڑاکٹھا کرلیاتھا۔ وہ خوشی خوشی گھرمیں داخل ہوا۔ گھرمیں داخل ہوتے ہی امجد اورعابد ابا کے کندھوں پرچڑھ گئے۔ بابوہمیں دوڑمیں انعام ملا ہے۔ میں اول آیاہوں۔ابا مجھے دوسرا انعام ملا ہے میں فٹ بال میں دوسرے نمبرپرآیاہوں۔اب سالانہ جلسے میں ہمیں انعام ملے گا۔خوب مزہ آئے گا۔اماں ابا آپ دونوں کو اسکول میں میڈ م نے بلایاہے ہے۔شہرسے سب بڑے بڑے لوگ آئیں گے۔ابا آپ چلوگے نااسکول!ہاں ہاں!ہم ضرور چلیں گے۔کہتے ہوئے ارشد وسمرین نے دونوں بچوں کو گود میں اٹھالیا۔
آج سرکاری اسکول کے سالانہ جلسے میں شہرکی نامی گرامی ہستیاں موجود تھیں۔ بچوں کے رنگا رنگ پروگرام پیش کرنے کے بعد پرنسپل صاحب نے انعامات کا اعلان کرتے ہوئے۔شہرکے سب سے بڑے تاجرسلیم خان کو بڑے ادب سے اسٹیج پرآنے کی دعوت دی۔تمام مضامین میں سوفیصد نمبرحاصل کرنے والے طالب علم امجد اورشہربھرمیں سب سے زیادہ نمبرلانے والے طالب علم عابد کو پرنسپل صاحب نے مسرت آمیزلہجہ میں اسٹیج پربلایا اورسلیم خان نے بچوں کوانعام دیتے ہوئے کہا۔آج مجھے ان بچوں پر فخرہے، نہایت ذہین اور اپنی دھن میں سوارہماری ملک کی آن بان اورشان ہیں۔غریبی کی سطح پر زندگی گزارنے کے باوجود ان بچوں نے محنت اورلگن سے یہ مقام حاصل کیاہے۔ کتابوں کے شوق نے آگے بڑھایانہ صرف پڑھائی بلکہ کھیل میں بھی پہلا اوردوسرا نعام حاصل ہواہے۔دونوں بچوں کو سلوراورگولڈ کا میڈل دیا جاتاہے۔امجد اورعابد نے بآوازبلند اپنے والدین کوبلایا۔دونوں نے اپنے گلے سے میڈل اتارکر اپنے والدین کے گلے میں ڈال دیئے۔اس انعام کے آپ حقدارہو۔والدین کے آنکھوں سے خوشی کے آنسوٹپکنے لگے۔دولت منت تاجرنے مائک پکڑتے ہوئے کہاکہ دوستوں ان بچوں کے کامیابی کے پیچھے والدین واساتذہ کے ساتھ ساتھ کتابوں کا بہت بڑاہاتھ ہے۔کتابیں پڑھ کر ہی علم کا خزانہ حاصل کیا جاسکتاہے۔موبائل،ٹی وی،کمپیوٹروانٹرنیٹ ان سبھی آلات سے بچوں کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔موبائل وانٹرنیٹ چھوٹے بچوں کو تاریک مستقبل کی طرف راغب کرتاہے۔سبھی بچوں کوچاہئے کہ وہ موبائل وانٹرنیٹ سے خود کوبچائیں۔والدین سے میری گزارش ہے کہ بچوں کی بے جا ضدوں کے آگے سرنہ جھکائیں اوربچوں کے اندر کتابیں پڑھنے کا شوق پیداکریں۔کیونکہ کتابیں ہی بچوں کی بہترین دوست ہے۔
���
[email protected]