’’بُلڑّی مولوی‘‘ کہانی

پرویز مانوس

اس ویران قبرستان میں باقی دنوں کے مقابلے میں آج قدرے چہل پہل نظر آ رہی تھی کیونکہ عید کے روز سارے عزیز و اقارب اپنے بزرگوں کو فاتحہ پڑھنے یہاں آتے ہیں۔ ہم دونوں بھائی بھی اپنے والد کی قبر پر آئے تھے ،فاتحہ پڑھ کر جونہی باہر نکلنے لگے تو میرے کانوں میں ایک مدھم سی آواز گونجی ” یو بلڑی مولوی”میں نے آگے پیچھے دیکھا، کوئی نہیں تھا _دفعتاً میری نظر دائیں جانب ایک شکستہ قبر پر پڑی جو کہ اندر کی جانب دھنسی ہوئی تھی ،پاس جاکر کتبہ پڑھا تو عبرت ہوئی اور بے ساختہ زبان سے نکلا ” زمیں کھا گئی آسمان کیسے کیسے “۔ کتبے پر لکھا ہوا نام “جسٹس افتخار سلمانی”میرے زہن میں گھومنے لگا _۔
افتخار صاحب کو میں بچپن سے جانتا تھا _وہ ہمارے ساتھ والے سرکاری کواٹر میں رہتے تھے۔ جب ہمارے والد صاحب کا تبادلہ شہر میں ہو گیا تو ہمیں بھی اُن کے ساتھ شہر آنا پڑا۔وہ محکمہ پھولبانی میں ہیڈ مالی تھے اورسیدھے سادھے و دیندار انسان تھے۔ چند ماہ کے بعد جب محلے والوں نے سُنا کہ وہ حافظ کلام اللہ ہیں تو انہوں نے گزارش کی کہ وہ مسجد کی امامت قبول فرمائیں اوربدلے میں کچھ ہدیہ دے دیا کریں گے۔ _انہوں نے یہ کہہ کر معذرت چاہی کہ میں ظہر کے وقت ڈیوٹی پر ہوتا ہوں اس لئے یہ ذمہ داری نہیں نبھا سکوں گا۔ پھر مسجد کمیٹی نے بیچ کا راستہ نکال کر یہ فیصلہ کیا کہ ظہر کے بغیر باقی نمازوں میں آپ حاضر رہیں گے ،بابا نے بھی غنیمت جانا کیونکہ ڈیوٹی سے فارغ ہوکر وہ گھر میں یونہی بیٹھے رہتے، _پھر جب تک وہ اس قبرستان میں نہیں پہنچے تب تک خدمت کرتے رہے۔ میں اُس وقت آٹھ برس کا تھا اور بھائی سال کا ،ہم روز دیکھتے تھے کہ ایک سفید ایمبسڈر کار ہمارے کواٹر کے احاطے میں رُکتی اور اس میں سے جسٹس افتخار اُتر کر سیدھا ناک کی سیدھ میں اپنے کواٹر کی طرف بڑ ھ جاتے۔ _ اُن کے تین بیٹے عدیل،نبیل اور عقیل تھے جو شہر کے بڑے انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرتے تھے _ ۔
ہمارا روز کا معمول تھا کہ فجر کی نماز والد صاحب کے ساتھ ادا کرتےلیکن ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ جسٹس افتخار یا اُن کے بیٹوں میں سے کوئی مسجد آیا ہو۔ دراصل وہ اپنے برابر یہاں کسی کو نہیں سمجھتے تھے۔ نہ کسی کے کواٹر میں جانا نہ کسی سے فالتو بات کرنا ،یوں سمجھ لیں سماجی تعلقات سے وہ باکل بے بہرہ تھے۔ اُن کی بیوی کو بھی کسی ہمسایہ عورت سے کبھی بات کرتے نہیں دیکھا شاید انہوں نے اُسے منع کررکھا تھا۔ _ اُن کا اُٹھنا بیٹھنا جوڈیشری کے چند بڑے افسران سے تھا جنہیں ہم اکثر اُن کے بچوں کی سال لگرہ پر دیکھتے ،اُس دن تو وہاں بڑے بڑے اسپیکروں پر بُلند آواز میں پنجابی نغمےبجتے اور سارے مِل جُل کر خوب ڈانس کرتے اورمجال ہے کواٹروں میں رہنے والے کسی ہمسایہ کو دعوت دیتے _۔ یہ تو اُن کا روز کا معمول تھا کہ صُبح ایمبسڈر میں بیٹھ کر نکل جاتے اور شام کو گھر آتے ،ایک دو بار میں بابا کے ساتھ بازار سے سودا سلف لانے نکلا تھا کہ جسٹس افتخار سے سامنا ہو گیا ،بابا نے اُنہیں بڑے خلوص سے السلام عليكم کہا تو جسٹس افتخار نے منہ سے جواب دینے کے بجائے سر ہلاکر جواب دیا _ تھوڑا آگے چل کر میں نے بابا سے دریافت کیا ” بابا جسٹس افتخار صاحب کیا بات نہیں کرسکتے تو انہوں نے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا”نہیں بیٹا ایسا نہیں ہے ہماری طرح خُدا نے انہیں بھی زبان دی ہے لیکن ہمارے سلام کا جواب دینا اُنہیں گوارا نہیں۔ _ بیٹاکچھ لوگوں کی دُنیا بڑی محدود ہوتی ہے۔ وہ خود میں ہی جیتے ہیں _جس طرح ریشم کا کیڑا اپنے ہی خول میں مرجاتا ہے _ ۔اس بات کی تصدیق تب ہوئی جب ایک دن کواڑوں میں رہنے والے ہم تمام بچے احاطے میں کرکٹ کھیل رہے تھے تو اُن کی ایمبسڈر کار گیٹ سے داخل ہوئی، جونہی وہ کار سے اُترے اور گھور کر ہم سب کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے تینوں بیٹوں سے مخاطب ہوکر بولے ” کتنی مرتبہ کہا ہے کہ ان بچوں کے ساتھ کھیل کر اپنا وقت مت ضائع کرو ،ان کی صحبت میں رہو گے تو تمہارے خواب کبھی پورے نہیں ہونگے ۔ وہ جانے لگے تو میں نے آگے بڑھ کر کہا _ انکل ہماری بال…………! تو جسٹس افتخار تُرش لہجے میں مخاطب ہوئے “تم نے انکل کس کو کہا ؟
خبردار جو ہم سے رشتہ جوڑنے کی کوشش کی ۔۔۔۔دُور رہو….. دُور رہو اپنا لباس دیکھا ہے ؟
تمہیں تو باپ کی طرح مولوی ہی بننا ہے کم از کم ہمارے بچوں کا مستقبل تو خراب مت کرو۔ _ ہم نے انہیں بلاکر نہیں لایا وہ خود ہمارے ساتھ کھلینے آئے ،میں نے نہایت ہی انکساری سے کہا تو وہ غُصے میں بولے ” دیکھو ……!یہ کرکٹ ورکٹ تم غریب لوگوں کے کھیل ہیں میرے بیٹے چیس کھیلتے ہیں چیس۔۔۔۔! ‘‘
نام سُنا ہے کبھی ؟
’’تمہیں تو کھیلنے کے بغیر کوئی کام ہے نہیں گنوار کہیں کے ،کواٹر کے سامنے کھیلتے ہو تو ان کی توجہ اس طرف چلی جاتی ہے۔‘‘ _انکل میدان تو کھیلنے کے لئے ہی ہے _بد تمیز …! مجھ سے زبان لڑاتا ہے،جوونائیل ہائوس بھیج دوں گا کھیلتے رہنا وہیں کرکٹ _۔ دے دو اس کو بال۔” بلڑ مولوی” کہہ کر وہ کواٹر کی طرف بڑھ گئے _۔ اُن کے کہے ہوئے الفاظ سُن کر مجھے دھچکا سا لگا۔ میں نے گھر جاکر بابا کو یہ بات سُنائی تو انہوں نے کہا “بیٹا جسٹس صاحب کے منہ سے مولوی لفظ سُن کر تمہیں بُرا کیوں لگا ؟ تمہیں تو فخر ہونا چاہئے کہ تم اُس مولوی کے بیٹے ہو جس کے پیچھے کتنے لوگ نماز ادا کرتے ہیں _۔
بلاشک اُن کے لئے مولوی کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی لیکن بیٹا …..! مولوی کی ڈگری کوئی معمولی چیز نہیں ،مولوی دینی علم کے سمندر کا وہ خواض ہے جس کا دامن انمول موتیوں سے بھرا ہوتا ہے، جن سے انسان کا ظاہر ہی نہیں باطن بھی چمک اُٹھتا ہے۔ _اگر ڈاکٹر انسان کے جسم کا علاج کرتا ہے تو مولوی انسانی روح کو پاک کرنے کے طریقے سکھاتا ہے ،اگر انجنئیر بُلند و بالا عمارتیں تعمیر کرتا ہے تو مولوی انسان کے ایمان کی اساس کو مستحکم کرتا ہے ،بھلے ہی جسٹس صاحب ہم قمیض شلوار پہنے والوں کو کمتر سمجھیں لیکن الله کی نظر میں تو ہم برتر ہیں ،ایک بات یاد رکھنا میرے بچو……..! انسان تبھی سینہ تان کر کھڑا رہ سکتا ہے جب اُس کی ریڑھ کی ہڈی مضبوط ہوتی ہے ،سمجھ لو مولوی بھی اس سماج کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ بابا کی بات سُن کر میرے دل کو تھوڑا سا سکون ملاء _ہم دونوں بھائی چونکہ مدرسے میں پڑھتے تھے اس لئے ٹھان لیا کہ اب مولوی ہی بننا ہے۔ وقت گزرتا گیا ہم نے بھی تعلیم مکمل کرلی اور جسٹس افتخار صاحب کے بیٹے بھی تعلیم مکمل کرکے آسٹریلیا، امریکہ اور جاپان ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرنے چلے گئے۔دوران سروس جسٹس صاحب نے پاس میں ہی ایک چار منزلہ بنگلہ خرید رکھا تھا اور ریٹائر منٹ کے بعد وہ اُس میں شفٹ ہوگئے۔ جوانی تو انہوں نے عیش پرستی میں گزار دی اور آخری وقت میں انہیں خدا یاد آیا تو اب وہ مسجد میں بھی نظر آنے لگے۔ _ اتنے برسوں میں نہ کسی سے سلام دُعا نہ خیر خیریت _ ، اب وہ چاہتے تھے کہ لوگ اُن سے ملیں اُن سے باتیں کریں لیکن آج کے وقت میں کون کسی کی پرواہ کرتا ہے، _ عہدے کے ساتھ ساتھ وہ دم خم بھی جاتا رہا جس پر انہیں گھمنڈ تھا۔ _اس دوران ہمارے والد صاحب کی طبیعت بگڑ گئی تو عیادت کے لئے گھر میں لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ آخر ایک دن وہ دارالفنا سے دارالبقا کی جانب تشریف لے گئے،جنازے میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے ، میں نے اُن کی نماز جنازہ خود پڑھائی اور دل کو ایک سکون ساملا جبکہ جسٹس افتخار بیمار ہوئے تو اُن کا حال تک پوچھنے کوئی نہیں آیا۔ _اب مسجد کمیٹی نے با اتفاقِ رائے مجھے والد کی جگہ امامت کے فرائض انجام دینےکی ذمہ داری سونپی جسے میں نے خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ اس دوران جسٹس افتخار سخت علیل ہوئے تو اُن کی اہلیہ نے بیٹوں کو فون کرکے بتایا کہ آپ کے والد بہت بیمار ہیں تو اُن کا جواب یہی تھا”ممّاپلیز……! آپ ہماری مجبوری سمجھنے کی کوشش کریں ، پیسہ بھیج رہے ہیں نا کسی اسپتال میں داخل کرادو اُنہیں ،ہمیں کمپنی سے چُھٹی ملنا نا ممکن ہے۔‘‘ _ ایک صبح دروازے پر دستک ہوئی، تو میں نے کواڑ کھولے تو سامنے ایک اجنبی عورت کھڑی تھی۔ _ میں نے سلام کیا، وعلیکم سلام کےبعد انہوں نے کہا ” میں جسٹس افتخار صاحب کی اہلیہ ہوں،‘‘ میں نے فوراً کہا _ ’’آپ باہر کیوں کھڑی ہیں؟ اندر تشریف لائیں آنٹی اور بتائیں ہم آپ کی کیا خدمت کرسکتے ہیں تو انہوں نے روتے ہوئے کہا آپ کا حُسنِ اخلاق دیکھ کر مجھے بےانتہا خوشی ہوئی ” بیٹا مجھے معلوم ہے کہ افتخار صاحب نے آپ لوگوں کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ ہم نے اپنے بیٹوں کو اعلی تعلیم تو دلوائی لیکن دینی تعلیم دلوانے کی توفیق خُدا نے ہمیں نہیں دی جس سے اُنہیں والدین کی خدمت کرنے کا اجر پتہ چلتا، آج وہ سخت بیمار ہیں جن بیٹوں کے لئے انہوں نے ہر فرض نبھایا آج اُن کے پاس باپ کے لئے فرصت نہیں _۔
پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ، آپ حکم کیجئے آنٹی ہمیں کیا کرنا ہے؟ میں نے فوراً کہہ دیا تو وہ کہنے لگیں اگر ہوسکے تو آپ انہیں اسپتال تک پہنچادیں۔
کوئی بات نہیں، آپ فکر نہ کریں آنٹی ، آنسو پونچھ لیں سب ٹھیک ہوجائے گا _۔ پھر ہم نے فون کرکے جلدی سے ایک نجی وین منگوا کر انہیں بے ہوشی کے عالم میں اسپتال تک پہنچایا جب ہم دونوں نے انہیں بیڈ پر رکھا تو اُن کی آنکھ کُھل گئی اور انہوں غور سے ہمارے چہروں کو دیکھ کر مُسکراتے ہوئے کہا” یو بلاڈی مولوی” آج اُن کے اس جُملے میں عجیب سی محبت کا احساس ہوا تو میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا” یس وی آر مولوی” ایک ہفتہ تک اُن کا علاج چلتا رہا، کھانا وغیرہ ہم گھر سے لے کر آتے تو اُن کی بیگم کہتی “کاش میرے بیٹے بھی آپ جیسے ہوتے” علاج کے باوجود وہ جانبر نہ ہوسکے اور کچھ روز بعد اُن کا انتقال ہوگیا۔ ہم دونوں بھائیوں نے ہی اُن کو غُسل دیا پھر میں نے اُن کی نماز جنازہ پڑھائی اور محلے والوں کی مدد سے تجہیز و تدفین کی۔ _آج اتنے برس بعد اُن کی شکستہ قبر دیکھ کر میں نے بھائی سے کہا ” آؤ بھائی ان پر بھی فاتحہ بھیجیں کیونکہ ان کا یہاں کوئی نہیں ہے۔ ہاتھ اُٹھاتےہی پھر یہ جملہ گونجا” you bloody Molvi.ـ”

���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛ 9622937142