غزل

نگاہیں جھیل تو چہرہ گلاب رکھتا ہے
وہ کمسنی میں بھی کتنا شباب رکھتا ہے
بڑا غرور ، بڑا ہی رباب رکھتا ہے
وجود اپنا جو مثلِ حباب رکھتا ہے
کہیں دکھائی نہیں دیتا وہ مجھے لیکن
ہر ایک بات کا میری حساب رکھتا ہے
ہے جس کے پاس بہت زر زمین زن یارو
جہاں بھی اس کو ہی عزت مآب رکھتا ہے
اسی نے خار بچھائے تھے میری راہوں میں
جو آج قبر پہ آکر گلاب رکھتا ہے
جسے بھی دیکھ لے اک بار وہ بہک جائے
نظر میں اپنی وہ ایسی شراب رکھتا ہے
بلائیں دور ہی رہتی ہیں اسکے در سے رفیقؔ
جو اپنے گھر میں خدا کی کتاب رکھتا ہے

رفیق عثمانی
آکولہ،مہاراشٹرا
[email protected]