غزلیات

عشق ہوگا رفعتوں پر ایک دن
جگمگائے گا مقدر ایک دن
تشنہ لب کی برد باری دیکھ کر
خود پلائے گا سمندر ایک دن
خوبصورت یہ حویلی جسم کی
ہو کے رہ ‌جائے گی کھنڈر ایک دن
ناز مت کر شیشے کی دیوار کا
زخم دے گی چُور ہو کر ایک دن
وقت کے تیروں سے ہے چھلنی جگر
رنگ لائے گا یہ پیکر ایک دن
آس کے ہی بیج دل میں بوئے رکھ
پیڑ ہونگے یہ تناور ایک دن
خوب ہے گوہرؔ تمہیں فن سے لگن
بن ہی جاوُ گے سخنور ایک دن

گوہر ؔؔبانہالی
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9906171211

جب خفا ہم سے ہماری زندگی ہونے لگی
شعر کہنے آگئے اور شاعری ہونے لگی
ہم نے سوچا بھی نہیں تھا آپ کی پرچھائی سے
زندگی کے مسئلوں پر بات بھی ہونے لگی
دل کے حجرے میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا مگر
نام تیرا جب لیا تو روشنی ہونے لگی
لوگ تیرا نام لے کر، چھیڑتے ہیں اب مجھے
دیکھ اپنے عشق پر بھی مسخری ہونے لگی
تُجھ کو اپنے پاس دیکھا، جان آئی جان میں
بُت میں میرے روح کی پھر واپسی ہونے لگی
لاکھ ہوں گی خوبصورت، خوش گلو اور دلنشیں
آپ سی لیکن نہیں یاں دوسری ہونے لگی
کہہ دیا ممتازؔ مجھ کو یہ دلِ سنسان نے
اب نہ برسوں تک کسی سے دل لگی ہونے لگی

ممتاز احمد ممتازؔ
بکوری،راجوری،جموں

زیاں یوں بھی مِرا ہے اور یوں بھی
جلایا گو چراغوں میں ہے خوں بھی

خرد گوپاسباں ہے خاک دان کی
بشر کے کام آتا ہے جنون بھی

اُکھاڑا وقت نے تھا کس طرح پر
کھڑا ہر دم رہا میرا ستون بھی

بناکر توڑ دی کیوں میںنے مورت
فسانا خواب کا تھااِک فسوں بھی

تِرے گُل گوں حسیں موسم کے دن ہیں
وہی میں ہوں نہیں ہوں یا کہ ہوں بھی

مشتاق مہدی
مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053

یہ قریہ قریہ تاریکی اُجلوں کی تمنّا کون کرے
یہ بستی بستی غافل ہے سوتوں کو جگایا کون کرے

میں محشر محشر مارا ہوں ، میں بستی بستی بنجارہ
جب کوئی گناہ سرزَد نہ ہو جنّت سے نکالا کون کرے

وہ عِشق بھی کیا عِشق ہے جس عِشق میں کوئی درد نہ ہو
جب درد ہی ہمدرد بنے دردوں کا مداوا کون کرے

اس نے دیئے جو درد مجھے ، میں وابسط ان دردوں سے
جب ساتھ نہ دے بہاریں بھی کِھلنے کی تمناّ کون کرے

اس خانۂ دل پہ کیا بِیتے جس دل پر تجلّی اُن کی ہو
جلنا ہی مقّدر میں ہے جب جلنے کی پروا کون کرے

جو باندھے رہے ہر وقت مجھے مشتاقؔ میں ہوں ان زلفوں کا
اُمید نہ ہو جب رہائی کی جینے کی تمنّا کون کرے

خوشنویس میر مشتاقؔ
ایسو،اننت ناگ ،کشمیر
[email protected]

اپنی چشم نم کر کے تو دیکھو
کبھی دل سے گزر کے تو دیکھو

جب بھی آئے تجھے خیال کبھی
تب اسی سے گزر کے تو دیکھو

یہ تو آئینہ ایک دھوکہ ہے اب
اسے گر غور کر کے تو دیکھو

میں ہوں انساں فرشتہ ہوں نہ کوئی
اپنے اللہ سے ڈر کے تو دیکھو

جانے اب لوگ کیا یہ سوچتے ہیں
سبھی سے اچھا کر کے تو دیکھو

طلحہؔ اتنی بلندیوں کو چھو کر
اپنے کو نیچا کر کے تو دیکھو

جنید رشید راتھر (طلحہ)
آونورہ شوپیان

یہ خنجر وں کے سوداگر وفاءنہ مانگے کوئی
پتھر کے اہلِ تخت ہیں دیا نہ مانگے کوئی

بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دعاء نہ مانگے کوئی

قاتل ملا ہے مجھے منصف کے روپ میں
مجرم کے واسطے یہاں سزا نہ مانگے کوئی

ہوا میں زہر گھولتا ہے کہنے کو چارہ گر
گُھٹ جائے دم کسی کا دوا نہ مانگے کوئی

عبادت کرنے والوں کو کہتے ہیں مجرم سعیدؔ
کسی بیمار کی خاطر شفاء نہ مانگے کوئی

سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر، سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380

مجھ سے شرماتے ہیں وہ کسی غیر سے ملنے کے بعد
پھول مُرجھاتے ہیں جیسے خود بخود کِھلنے کے بعد

بھر دیا ہے اُس نے خالی جام لگتا ہےمجھے
کُھل گیا ہے زخم دل کا جیسے پھر سِلنے کے بعد

قتل کر دیگا بھلا اپنی صلاحیت کو کیوں
حوصلہ مند ہے کھڑا ہوتا ہے جو گرنے کے بعد

وار میری پیٹھ پر کرتے ہیں، ہے یہ اعتراف
دیکھنا وہ خوب روئینگے میرے بچھڑنے کے بعد

اُوس کی مانند جو اُلفت ہو اُسکا کیا مزہ
جلد گرتی ہے زمین پر پتیاں ہلنے کے بعد

سلیمہ ملک
درہال راجوری

دوسروں کے عیبِ افشاء کرنے کو تیار ہے
شخص جو بھی یاں ملے سمجھو وہ اک اخبار ہے

عام شہری کی بھلا ہم بات کیا کرلیں جناب
یاں امیرِ شہر کرتادھوکے کا بیوپار ہے

جھوٹ کا ہے بول بالاہر طرف ہر گام پر
ہر کسی کا تو یہاں پر بس یہ کاروبارہے

باغ کیسے سج رہے ہیں اب فحاشی کے یہاں
بک رہی ہے آبرو عزت سرِ بازار ہے

وقت اور حالات بدلیں کب، کہاں اور کسطرح
سوچ میں ڈوبا ہے تنہاؔ، بس یہ انتظار ہے

قاسم دین پسوال تنہاّ
سترنہ کنگن گاندربل