غزلیات

دشتِ ویراں میں کوئی پھول کھلاتے جاتے
چشمِ بےخواب میں اک خواب سجاتے جاتے

ساتھ جو ابرِ گریزاں کے تمہیں جانا تھا
برہنہ دھوپ کی دیوار گراتے جاتے

بوجھ کچھ نازکیء من کا اُتر تو جاتا
نغمہء زیست کا اک مصرعہ اُٹھاتے جاتے

دل ملانے کی گزارش میں نہیں کرتا کبھی
مسکراتے ہوئے بس ہاتھ ملاتے جاتے

آدمی میں کوئی انساں نظر تو آتا
من کی دیوار پہ اک دیپ جلاتے جاتے

اپنے آنچل کے ہواؤں کو نہ روکا ہوتا
میرے اخلاص کے پردوں کو ہلاتے جاتے

پھول جو رہ میں کھلا سکتے نہیں تھے عادل ؔ
راہِ پُر خار سے کچھ خار ہٹاتے جاتے

اشرف عادل ؔ
الٰہی باغ سرینگر
موبائل نمبر؛9906540315

ہم نے جب بھی بات کی تو آدمی کی بات کی
موت کو رہنے دیا اور زندگی کی بات کی

اپنے مسلک میں جو لکھا ہے وہی ہم نے کیا
دشمنوں کی صف میں آکر دوستی کی بات کی

حسن والوں تک یہی پیغام پہنچائے کوئی
عہدِ پیری میں بھی ہم نے عاشقی کی بات کی

اس کا اندازہ غلط نکلا کہ موڑیں گفتگو
ہم نے بازی ہار لی پر دل لگی کی بات کی

ہم نے ہر محفل میں چھیڑا ذکر اس کے گاؤں کا
ہم نے اپنے یار کی مہکی گلی کی بات کی

چاند چُھونے کا کوئی دعویٰ نہیں کرتے ہیں ہم
خاک زادوں سے لپٹ کر ہمسری کی بات کی

کوئی شیدؔا سے تقاضا نثر کا کیوں کر کرے
یار موضوعِ غزل ہے شاعری کی بات کی

علی شیداؔ
نجدون نی پورہ، اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419045087

جان تیری بے رخی صحرا کی دھوپ
مان میری زندگی صحرا کی دھوپ
سینچتا ہوں فکر کے اشجار دیکھ
کررہی ہے دشمنی صحرا کی دھوپ
چاہتے ہو آب، سبزہ اور پھول
پاس میرے تشنگی صحرا کی دھوپ
رہبروں نے کر دیا ہے دل ملول
زندگی ہرہر گھڑی صحرا کی دھوپ
آگ برساتی ہے دن میں دور دور
لوٹتی ہے دلکشی صحرا کی دھوپ
راحتوں کی بات گوہرؔ الامان
ایک وحشت ہے ابھی صحرا کی دھوپ

گوہرؔ بانہالی
بانہال رام بن
موبائل نمبر؛9906171211

روکنا اس کو دشوار پہلے نہ تھا
وہ کبھی مجھ سے بیزار پہلے نہ تھا
میرے اوسان سارے خطا ہو گئے
عشق میں اتنا لاچارپہلے نہ تھا
لوگ یہ سب عدو بن گئے ہیں مرے
اس قدر بے مدد گارپہلے نہ تھا
سانپ بن کر یہ تنہائی ڈستی رہی
دل مرا اتنا بیمار پہلے نہ تھا
زخم ہی زخم ہیں اب بدن پر مرے
رستہ اتنا بھی پُر خار پہلے نہ تھا
وصلِ معشوق اب دور کی بات ہے
مجھ سے ناراض تو یار پہلے نہ تھا
عمر تمام ہونے کو آزادؔ ہے
خم یہ آنکھوں کا خمار پہلے نہ تھا

فیاض آزادؔ
دلنہ بارہمولہ، کشمیر
موبائل نمبر؛6005196878

عشق میں تو بندہ بازی گر بھی ہونا چاہیے
راہِ الفت میں تو خاکستر بھی ہونا چاہیے
دے رہی ہے درس یہ تمثیل ابراہیم کی
بالمقابل کوئی تو آذر بھی ہونا چاہیے
ہر طرف ہیں ظلم کی تاریکیاں تو کیا ہوا
امتیازِ خیر کو تو شر بھی ہونا چاہیے
یہ نہیں ممکن کہ کوئی اور ہو خیبر شکن
لشکرِ جرّار میں حیدر بھی ہونا چاہیے
کیا غضب تم چاہتے ہو مرتبہ حسنینؓ کا
پھر تو کٹنے کے لیے وہ سر بھی ہونا چاہیے
موت ہے برحق مگر تم بےسبب مرنا نہیں
کیونکہ جنّت میں تو اپنا گھر بھی ہونا چاہیے
آخرت، توحید و سنت ماننا ایمان ہے
ہاں مگر ایمان پختہ تر بھی ہونا چاہیے
علم و عرفاں ہے ضروری پیشوائی کے لئے
وہ بشر دل سے مگر اطہر بھی ہونا چاہیے
عشق کی تمہید میں دل کو جلانے کے لئے
سر میں سودا سنگ میں دلبر بھی ہونا چاہیے
کُوبہ کُو کیونکر کسی سے ہم کریں شکوے گِلے
عشق میں دل رنج کا خوگر بھی ہونا چاہیے
چاہتے ہو تم اگر توبہ تمہاری ہو قبول
شرط ہے مودود ؔدیدہ تر بھی ہونا چاہیے

حفیظ اللہ مودودؔ وانی
واڑون۔ کشتواڑ ، نوائے کوہسار کلچر فورم
موبائل نمبر؛7889923743

دل لگا کر چھوڑ جائیں ہم، یہ ممکن ہی نہیں
اپنی دنیا خود بسائیں ہم، یہ ممکن ہی نہیں
زندگی میں ایک بار جس پر نثار ہو چکے
اس کے کوچے سے پلٹ جائیں، یہ ممکن ہی نہیں
قبلہ کعبہ نہ ہم سے روز بدلاجائے گا
خوشبو ہر گل سے چرائیں ہم یہ ممکن ہی نہیں
دل لگی کی بات ہم ہرگزبھی کر سکتے نہیں
اور دل سلیقے سے لگائیں، ہم یہ ممکن ہی نہیں
الفتوں کے راستوں پہ آبلے ہیں، ریت ہے
تلخیوں کو بھی بھالئیں ہم، یہ ممکن ہی نہیں
صاف گو ہیں صاف دل ہیں جو کہیں دل سے کہیں
دانتوں تلے انگلی دبائیں ہم، یہ ممکن ہی نہیں
زندگی میں تیری اے نعیمؔ درد ہیں ناسور ہیں
تیری اس کج ادائی پہ مر جائیں، یہ ممکن ہی نہیں

ڈاکٹر نعیم انساء
بہروٹ، تھنہ منڈی، راجوری

خود سے بھی اک عمر تک جدا رہا ہوں میں
اپنی تباہی میں مبتلا رہا ہوں میں

دل جو لگا میرا ہجر میں سو مسلسل
ہجر کا دورانیہ بڑھا رہا ہوں میں

اک پری پیکر کی چاہ تھی مجھے اور پھر
زندگی بھر نقش ڈھونڈتا رہا ہوں میں

حال کی صورت پہ مت جا دیکھنے والے
کچھ گئے وقتوں میں مسئلہ رہا ہوں میں

تو جو نظر آیا تو ہوا ہے یہ ظاہر
خود سے بھی اب تک نا آشنا رہا ہوں میں

تھک چکا ہے دل حقیقتوں سے بہت پر
خوابوں کی پتنگ یونہی اُڑا رہا ہوں میں

کر چکا ہوں بند ساری یادوں کا دفتر
تمہیں بھی اب غالباً بھلا رہا ہوں میں

حد سے زیادہ ہی سچ اُگل رہی تھی سو
اپنی ہی آواز کو دبا رہا ہوں میں

توصیف شہریار
اننت ناگ
موبائل نمبر؛7780895105

کروٹیں راتوں میں بدلتا ہوں میں
تیری یاد میں یوں مچلتا ہوں میں

نہ ہو ربط کوئی عشق سے پھر میرا
سو با پردہ گھر سے نکلتا ہوں میں

کہ چاہتا سمندر ڈوبو دے مجھے
پر ہر بار بچ کر نکلتا ہوں میں

ہائے رے وہ تلخیاں تیری باتوں کی
سمجھ کر شربت اسے نگلتا ہوں میں

پتا میر ا مئے کدہ بن گیا گویا
ہر کسی کو و ہاں ملتا ہوں میں

کیا کہا فیضیؔ عشق ہوا تمہیں
السلام علیکم! چلتا ہوں میں

محمد فیضان فیضیؔ
طالب دار الہدی
موبائل نمبر؛7385851695

آج بے حد بے حساب لگ رہی ہو
کچھ بھی ہو لا جواب لگ رہی ہو

یوں تو کئی گل ہیں گلستاں میں
آپ ان میں گلاب لگ رہی ہو

ڈھل چکی ہے شام اور زرد بھی
چاندنی رات کی ما ہتاب لگ رہی ہو

اُبھر کے آیا تھا سوال میرے یاروں کا
مچل کے تم اس کا جواب لگ رہی ہو

روشن ہے جس سے یہ جگ سارا
در حقیقت وہی آفتاب لگ رہی ہو

محمد عارف عاشق
[email protected]