غزلیات

پیار کے نام پر گفتگو چل پڑی
میرے محبوب کے رُوبرو چل پڑی
جب محبت ہوئی سُرخرو چل پڑی
ایک خوشبو لہو در لہو چل پڑی
مجھ کو نہ ملا کوئی بھی ہم سفر
ساتھ میرے تیری آرزو چل پڑی
دیکھئے اشک پلکوں تلک آگئے
گھر سے پردہ نشیں آبرو چل پڑی
دُوریٔ طور کے کوئی معنی نہیں
جب ارادہ چلا جستجو چل پڑی
تیرا نقشِ قدم چُھوکے دیکھا ہی تھا
بَن کے تصویر سی رنگ و بُو چل پڑی
زندگی ضد نہ کر مُجھ کو معلوم ہے
ایک ٹھوکر لگی اور تُو چل پڑی
دونوں اپنی جگہ پر تھے پنچھیؔ اگر
بات کیوں عشق کی چار سُو چل پڑی

سردار پنچھیؔ
جیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑ، کھنہ پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668

کس کا یوں انتظار کرتا ہے
دل کو کیوں بے قرار کرتا ہے

یہ زمانہ کرے گا جو روجفا
ذکر کیوں بار بار کرتا ہے

تجھ پہ کرتا ہوں زندگی یہ نثار
تو بھی کیا مجھ سے پیار کرتا ہے

سلسلہ یہ نہیں ہے رُکنے کا
دل میں کیوں غم شمار کرتاہے

دور رہ اِس جہاں سے تم
خود کو کیوں دل فِگار کرتا ہے

جس کی فطرت ہے پیار کرنا جو
وہ زمانے سے پیار کرتا ہے

وہ کہ اپنے ستم سے ہتاشؔ
خود کو دنیا میں خوار کرتا ہے

پیارے ہتاشؔ
دور درشن لین جموں
موبائل نمبر؛8493853607

غمِ جاناں قیام کیا نہیں ہے
غمِ دوراں شکایت کیا نہیں ہے
نگاہوں سے بہاتا خونِ دل ہوں
تمہاری ہی عنایت کیا نہیں ہے
ذرا سا صبر ہی مقصود تو ہے
وصل کی مجھ کو حاجت کیا نہیں ہے
خدارا رحم کر وحشت طبع پر
تجھے کچھ پاسِ اُلفت کیا نہیں ہے
نبھائیں گے جو وعدے کرچکے ہیں
قیامت تک بھی فرصت کیا نہیں ہے
میرے اپنے ہی آزارِ جہاں ہیں
زمانے بھر میں حُرمت کیا نہیں ہے
کسی کی آنکھ سے ٹپکا تو آنسو
ترِ دامن کی زینت کیا نہیں ہے
منیبؔ محو سفر ہے سوئے صحرا
یہ بستی شہرِ وحشت کیا نہیں ہے

مرزا ارشاد منیبؔ
بیروہ بڈگام، کشمیر
موبائل نمبر؛9906486481

ہم اُن کے تبسم کو نہ کیوں یاد کرینگے
کیوں آرزوئے نرگس و شمشاد کرینگے

مت دیکھ نظر بھر کے یہ میخوار ہیں ساقی
خود کو ترے اس ناز پہ برباد کرینگے

اس عالمِ اِمروز کو بارود پہ رکھ کر
اب چاند پہ دنیا نئی ایجاد کرینگے

اسرارِ جہاں سامنے آجائینگے کُھل کر
گر اپنی نگاہوں کو ہم آزاد کرینگے

رہنے دو تماشہ سعیدؔبرق و بلا کا
فرصت کبھی مل جائے تو پھر فریاد کرینگے

سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380

نا تو مرتے ہو نہ ہی کرتے ہو وصال
تیرے لہجے کی یہ نرمی ہے با کمال

اس قدر الجھی ہے میری یہ زندگی
دور ہوتے ہیں نہ غم ہی اور یہ ملال

تیرا سایا جب تلک ہے سر پہ ماں
نا مجھے ہے ڈر نہ ہے کوئی بھی زوال

اس محبت نے سکھایا ہے اب بہت
نا دغا دے گی کھبی یہ دے گی سوال

طلحہؔ قائم رکھ اُمیدیں اس ذات پہ
جو ہے سنتا بے بسوں کے سب ہی یہ حال

جنید رشید راتھر طلحہؔ
آونورہ شوپیان

چلچلاتی دُھوپ میں جیسے اشجار کے سائے ہیں
خواب ہم نے جو اپنی آنکھوں میں سجائے ہیں

ملے گا صِلہ اُن کا آخرت میں اُس کو
زندگی میں نیک اعمال جس نے کمائے ہیں

پڑے ہیں بے بس موت کی تمنا کئے ہوئے
جائیں گے کدھر وہ جو زندگی کے ستائے ہیں

بھاگے ہیں دُور تب کہیں اندھیروں کے قافلے
برسوں شبوں چراغ جب ہم نے جلائے ہیں

صورتؔ بنیں گے جنگل تناور درختوں کے ایک دن
پودے جو آج ہم نے صحرا میں لگائے ہیں

صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549

وہ باتیں یاد آتی ہیں، وہ لمحے یاد آتے ہیں
تو دل کو ٹھیس لگتی ہے، مجھے ہر وقت رُلاتے ہیں

میں سوچوں کیوں نہ ویرانے میں اپنا گھر بنا ڈالوں
نظر بستی میں ہر جانب منافق ہی تو آتے ہیں

وفا اور درد کا جذبہ تو ڈھونڈے سے نہیں ملتا
یہاں تو لوگ چہروں پر نئے چہرے سجاتے ہیں

لگا رہتا ہے ڈر خود سے کہیں میں ہارنا بیٹھوں
کہ کردارِ عدو اکثر میرے اپنے نبھاتے ہیں

وفا کی آس میں آئی سلیمہؔ تم یہاں کیسے؟
یہاں کی بستیاں تو لوگ دیکھو خود جلاتے ہیں

سلیمہؔ اختر ملک
درہال، راجوری

تیری بے رُخی پہ ہمیں اعتبار نہیں کرنا
کچھ بھی ہو ہمیں عشق دو بار نہیں کرنا

چاہتوں کے سفر میں اُڑائی ہے خاک میں نے بھی
کچھ بھی ہو مجھے اس غم میں شمار نہیں کرنا

یاروں نے باندھی ہے زنجیریں بڑے شوق سے مجھے
اتفاقاً بھی انہیں طنز کاشکار نہیں کرنا

محبت میں لُوٹا ہے کیا ہے ویران مجھے
اور تم کہتے ہو یہ خلش دل کے پار نہیں کرنا

یادیں اس ستم گر کی آتی ہیں سو آتی ہونگی
دوستوں کو مگر تم کبھی خبردار نہیں کرنا

جن بزرگوں نے آباد رکھا ہے تجھے گلوں کی طرح
عثمانؔ انکی محبت کو کبھی شرمسار نہیں کرنا

عثمانؔ طارق
ڈول کشتواڑ
موبائل نمبر؛9797542502