غزلیات

 

کسی کی جنگ ہم کیوں لڑ رہے ہیں
پرائے مسئلے میں پڑرہےہیں

کسی کی راہ تکنا بھی سفر ہے
مری آنکھوں میں چھالے پڑ رہے ہیں

محبت کو ادھیڑیں کب تلک اب
نیا کوئی فسانہ گڑ رہے ہیں

ابھی برسات کا موسم نہ لکھیں
ابھی ہم دشت و صحرا پڑھ رہے ہیں

ابھی سے دستکیں گھر واپسی کی!
ابھی ہم سیڑھیاں ہی چڑھ رہے ہیں

اُترتا جائے عریانی کا موسم
درختوں سے بھی پتے جڑ رہے ہیں

علی شیدؔا کوئی روکے بھلا کیوں
کوئی حد ہے کہ حد سے بڑھ رہے ہیں

علی شیداء
نجدون نیپورہ ،اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419045087

آتما ہے فن کی میرے وہ غزل کی جان ہے
اس کی سندرتا پہ میری شاعری قربان ہے

سننا چاہوگے اسے تو وہ ہے میرا کا بھجن
اور پڑھنا چاہوگے تو، میر کا دیوان ہے

میں تو اک قطرہ تھا فن کا کردیا ساگر مجھے
میرے مولا مجھ پہ تیرا کس قدر احسان ہے

اس کی رحمت سے زیادہ تو نہیں میرے گناہ
کیوں نہ پھر بخشے گا مجھ کو وہ بڑا رحمان ہے

دے رہا ہے پھر بھی وہ جھوٹی گواہی دیکھئے
ہاتھ گیتا پر ہے اس کا ،سامنے قرآن ہے

چند سکوں کے لئے یہ بیچ دیتا ہے ضمیر
کس قدر بگڑا ہوا یہ آج کا انسان ہے

وہ مصیبت میں سبھی کے کام آتا ہے رفیقؔ
ایک اچھے آدمی کی بس یہی پہچان ہے

رفیقؔ عثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا

کوئل کی صدا عکسِ صنوبر نہیں ملتا
دل جس سے بہل جائے وہ منظر نہیں ملتا
ہر روز مقدر میں سفر کس نے لکھا ہے
ہم خانہ بدوشوں کو کبھی گھر نہیں ملتا
تم زخمِ محبت کی نمائش نہیں کرنا
اس شہرِ تماشا میں رفو گر نہیں ملتا
کچھ ہاتھ سمندر میں اترنے پہ لگا ہے
ساحل پہ مچھیرے کو تو گوہر نہیں ملتا
بے داغ کرے قلب ِسیہ ایک نظر میں
اس دور میں وہ مردِقلندر نہیں ملتا
منزل کی مسافت میں گیا ایک زمانہ
رستے میں ابھی میل کا پتھر نہیں ملتا
خود ہی کو سنائیں گے ہم احوال یہ عارفؔ
ہمراز کوئی شہر میں ہم سر نہیں ملتا

جاوید عارفؔ
شوپیان کشمیر
موبائل نمبر؛7006800298

تمہارے وصل کا موسم،تمہاری دید کا موسم
کہا کرتے تھے اہلِ دل اسی کو عید کا موسم
بکھرنے کو ہیں سب میکش پلا پھر اپنی آنکھوں سے
چلے مے خانے میں ساقی تری تقلید کا موسم
تمناؤں کو دفنایا تمہاری بے وفائی نے
پلٹ کر پھر نہیں آیا کبھی امّید کا موسم
بڑی مدّت سے میخانہ عجب مستی میں ڈوبا ہے
مگر رندوں میں باقی ہے ابھی تمہید کا موسم
عجب اک ہوشمندی ہے بظاہر جو کہ رندی ہے
پرانی مے کے صدقے ہو ہر اک تجدید کا موسم
یہاں بے تاب رہتے ہیں جبینوں میں کئی سجدے
یہاں پر ٹک نہیں پاتا کبھی تردید کا موسم
خیالِ پیرِ رنداں میں ہی طاہرؔ عیدِ رنداں ہے
صراحی جام نے دیکھا ہے بس تائید کا موسم

ڈاکٹر تنویر طاہرؔ
گھاسی یار حول، سرینگر
موبائل نمبر؛70068048841

چار جانب مجھکو جو بازار آتا ہے نظر
ہر کوئی تاجر بڑا بیدار آتا ہے نظر
تاجروں کی بھیڑ ہے لیکن بتاؤ تو سہی
کیا کوئی یوسف کا خریدار آتا ہے نظر؟
ہر طرف اک دُھندسی ہر شے پہ چھائی شام ہے
ہر بشر اب خود سے بھی بیزار آتا ہے نظر
ہاں مگر اِس شام کی تاریکیوں سے جو لڑے
اپنی حد تک وہ مجھے خوددار آتا ہے نظر
جو کوئی بھی وقت کے طاغوت سے ٹکرائے گا
آخرت میں اُس کا بیڑا پار آتا ہے نظر
ہے وہ غافل پر ہماری فکر سے غافل نہیں
اُس کی ہستی اک سراپا پیار آتا ہے نظر
راہِ حق میں جاں لُٹانے کا درس جس نے دیا
مجھ کو وہ مودود اپنا یار آتا ہے نظر
جو منالے حلقہِ یاران میں شامِ غزل
گلشنِ اردو کا وہ غمخوار آتا ہے نظر

حفیظ اللہ وانی
دسبل، واڑون، کشتواڑ
موبائل نمبر؛7889923743

ملا اس سے تو اندازہ ہوا ہے
وہ اندر سے بہت ٹوٹا ہوا ہے

نہ جانے حادثہ کیسا ہوا ہے
ہراک بچہ بہت سہما ہوا ہے

مرے حالات تم مجھ سے نہ پوچھو
مرے چہرے پہ سب لکھا ہوا ہے

ہے جس کے پاس دولت اور شہرت
اسی کا سارا جگ اپنا ہوا ہے

پرائے دیس میں پرہیز کرنا
وہاں ماحول کچھ بدلا ہوا ہے

کروں میں فکر کیوں منزل کی رہبرؔ
مراہرراستہ دیکھ اہوا ہے

رہبرؔ گیاوی
بک امپوریم ،سبزی باغ ،پٹنہ بہار
موبائل نمبر؛9334754862

درد کی دہلیز تک آ تو گئے ہم
وعدہ و پیمان نبھا تو گئے ہم
کچھ بے وفا یادیں تو کچھ با وفا غم
اپنی وفا کا سلہ پا تو گئے ہم
اس بے کلی سی بے دلی میں ہوا کیا
اپنا کلیجہ ہی چبا تو گئے ہم
ہم سے کہاں اٹھتا غموں کا یہ گٹھا
خود کا جنازہ سو اٹھا تو گئے ہم
کون ہے وہ اور کہاں ہے کیا ہے
خاکہ کسی بت کا بنا تو گئے ہم
جانے وہ کب آئیں گے کس کو ہے خبر
حجرے کو اپنے ہاں سجھا تو گئے ہم
اس کے ہی کہنے پہ ہیں اس بزم میں ہم
اور اگر اس نے کہا تو گئے ہم
تمہیں جو تھا مسئلہ میری انا سے
اپنا ہی معیار گرا تو گئے ہم
موت تو اب آئی ہے۔۔ پر دیر ہوئی
زندگی کا بار اٹھا تو گئے ہم

توصیف شہریار
اننت ناگ،کشمیر
موبائل نمبر؛7780895105

میرے معصوم خوابوں کی کوئی تعبیر بھی ہے کیا
لکیروں میں میرے کاتب چھپی تقدیر بھی ہے کیا

چلو مانا نہیں ممکن بدلنا خود سے قسمت کو
میرے حق میں دعائوں کی کوئی تاثیر بھی ہے کیا

ہوئی اب جنگ لازم ہے حریفِ چین و راحت سے
یوں خود سے جیت پانے کی کوئی تدبیر بھی ہے کیا

میری اپنی کہانی میں میرا کردار جامد ہے
میری تخریب میں شامل میری تعمیر بھی ہے کیا

اُلجھتا ہے ذہن کیونکر میرے فرضی دلائل سے
میرے حق میں گواہی دے کوئی تحریر بھی ہے کیا

سفر یہ زندگانی کا کہیں رک سا گیا ہے پر
نیا آغاز کرنے میں بھلا تاخیر بھی ہے کیا

مصباح فاروق
لرو ترال، کشمیر
[email protected]

اب تو لگتا ہے کہ اس دل کی دیواروں کو گرایا جائیگا
اب تو لگتا ہے کہ میری پہچان کو مٹایا جائیگا
اب تو لگتا ہے کہ یہ دل سدا قفس میں رہے گا
اب تو لگتا ہے کہ اس کو آزاد نہ کیا جائیگا
اب تو لگتا ہے کہ میری فریاد کوئی نہ سنے گا
اب تو لگتا ہے کہ میری کراہ کو بھی دبایا جائیگا
اب تو لگتا ہے کہ یہاں پھول اُگائے جائینگے
اب تو لگتا ہے ان کو قبرستاں میں سجایا جائیگا
اب تو لگتا ہے کہ صداقت کہیں بیاں نہ ہوگی
اب تو لگتا کہ یہاں جھوٹ کو ہی سچ مان لیا جائیگا
اب تو لگتا ہے کہ یہاں بھوک بڑھا دی جائیگی
اب تو لگتا ہے کہ یہاں قحط برپا کیا جائیگا
اب تو لگتا ہے کہ باد صبا کو بھی روکا جائیگا
اب تو لگتا ہے کہ اذ یتوں سے لہو کو جمایا جائیگا
اب تو لگتا ہے کہ میرا جینا محال کر دیا جائیگا
اب تو لگتا ہے کہ مجھے کھلے آسماں تلے لایا جائیگا
اب تو لگتا ہے راشد تیرے کوچو ں کو پابند سلاسل رکھا جائیگا
اب تو لگتا ہےتجھے اپنی دل کی گلیوں میں پرایا کیا جائیگا

راشد اشرف
کرالہ پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622667105